السبت, 15 حزيران/يونيو 2013 22:25

آگرہ میں مغلیہ حکومت۔ بابر تا اکبر (’’تاریخ فرشتہ‘‘ کے حوالے سے) (فرقان سنبھلیؔ ) Featured

Rate this item
(0 votes)


 آگرہ میں مغلیہ حکومت۔ بابر تا اکبر

 (’’تاریخ فرشتہ‘‘ کے حوالے سے) (فرقان سنبھلیؔ )

 ہندوستان میں ترکوں کی آمد کے ساتھ ساتھ اسلامی حکومتوں کی تاریخ لکھنے کا چلن عام ہو چکا تھا۔جوکہ گیارھویں صدی سے اٹھارویں صدی تک مسلسل جاری رہا۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے اس سنہری دور کی پوری تاریخ موجود ہے۔یہ بھی اہم بات ہے کہ بہت سی تاریخیں فارسی زبان میں لکھی گئی ہیں۔ان میں محمد قاسم ہندو شاہ فرشتہ کی ’’تاریخ فرشتہ‘‘اہم تاریخی مآخذ قرار دی گئی ہے۔جو کہ فارسی میں ہے۔محمد قاسم فرشتہ کی تاریخ کی قدر اس لئے بھی زیادہ مانی گئی ہے کیونکہ اس نے حالات اور واقعات کو بیان کرنے میں ایمانداری برتی ہے۔اور کسی بھی واقعہ کو بیان کرنے میں حتی الامکان احتیاط برتی ہے۔تاریخ فرشتہ تین حصوں پر مشتمل ہے۔پہلے حصے میں سولہ (۱۶)الباب ہیں۔جن میں امیر ناصر الدین سبکتغین ،محمد غزنوی،سلطان ابراہیم،بہرام شاہ،خسرو وغیرہ کی حکومتوں کے احوال ،جنگی حکمت عملی،سیاسی سماجی اور انتظامی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔دوسرا حصہ تینتالیس(۴۳)الباب پر مشتمل ہے۔اس میں دلی سلطنت شہاب الدین غوری،کتب الدین،التمش، فیروز شاہ،رضیہ سلطان،بلبن،خلجی وغیرہ کے حکومتی احوال بیان کئے گئے ہیں۔
ساتھ ہی تغلق اور سادات خاندانوں کی تہذیبی ،ثقافتی اور ادبی معلومات بھی پیش کی گئی ہیں۔’’تاریخ فرشتہ‘‘ کے دوسرے حصے میں ہی بابر،ہمایوں اور اکبر کے ادوار پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔مغل حکومت کا قیام و استحکام ،بابر کا ہندوستان پر حملہ،ہمایوں کی حکومت اور اکبری حکومت کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کے نشیب و فراز کا بیان نہایت خوبی کے ساتھ کیا گیا ہے۔جبکہ تیسرے حصے میں جنوبی ہند اور بہمنی سلطنت کا بیان ہے اور یہ اٹھارہ(۱۸) الباب پر مشتمل ہے۔
فرشتہ کے تاریخ سے متعلق علم کو تسلیم کرتے ہوئے بادشاہ ابراہیم عادل دوئم نے اس سے ’’ہندوستان میں اسلامی حکومت کی تاریخ‘‘لکھنے کا مطالبہ کیا۔فرشتہ چونکہ غیر جانبداری کا پرستار تھا اس لئے اس نے بادشاہ سے معذرت کر لی۔لیکن جب بادشاہ کا اصرار بڑھا تو فرشتہ نے ۱۶۰۶ء ؁ میں تاریخ لکھنا شروع کی اور پانچ سال کی سخت محنت کے بعد ۱۶۱۱ء ؁ میں مکمل کی۔اس نے حالانکہ تاریخ لکھنے میں حتی الامکان احتیاط سے کام کیا لیکن کچھ خامیاں پھر بھی چھوٹ گئیں۔اس کی بڑی وجہ قاسم فرشتہ کو جغرافیائی علم کی مکمل جانکاری نہ ہونا تھی۔کچھ خامیوں کے باوجود ’’تاریخ فرشتہ‘‘ایک اہم تاریخی دستاویز ہے جو کہ ہندوستان میں اسلامی حکومتوں کے متعلق اہم معلومات فراہم کرتی ہے۔
محمد قاسم فرشتہ نے ظہیر الدین محمد بابر کے ذریعہ مغلیہ حکومت کے ہندوستان میں قیام کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔بابر کی پیدائش،خاندانی اختلافات،سمر قند،کابل وغیرہ کا بیان کرتے ہوئے جب وہ ہندوستان پر بابر کے حملوں کا بیان کرتا ہے تو اس سے اس دور کے حالات تو پتہ لگتے ہیں ساتھ ہی اس دور کی رسوم و روایتیں بھی معلوم ہو جاتی ہیں۔بابر پانی پت کی جنگ میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر آگرہ کے قلعہ کو آزاد کرانے پہنچا جو کہ ابھی تک سلطان ابراہیم لودھی کے عزیزوں کے قبضے میں تھا۔محض پانچ دنوں کے اندر ہی قلعہ بابر کے کنٹرول میں آ گیا تھا۔محمد قاسم فرشتہ نے تزک بابری کے حوالے سے لکھا ہے کہ بابر کو ابراہیم لودھی پر اپنی فتح بہت اہم معلوم ہوئی تھی۔کیونکہ اس نے حد سے زیادہ مخالف حالات میں یہ فتح حاصل کی تھی۔فرشتہ نے بابر کو ہمایوں کے ذریعہ قیمتی ہیرا پیش کرنے ،ہمایوں کو بابر کے ذریعہ مہر بند خزانہ عطیہ کرنے،لو اور شدت گرمی سے بابر کے سرداروں کی موت اور سرداروں کا کابل واپسی کا مطالبہ وغیرہ کا بیان بھی خوبی کے ساتھ کیا گیا ہے۔بابر نے آگرہ سے گوالیر کا سفر کیا اور وہاں سے سرخ رنگ کے گلاب کا پودھا آگرہ میں لگانے کا حکم دیا تھا کیونکہ تب آگرے میں گلاب کا سرخ پھول نہیں ہوتا تھا۔بابر کے انتقال کے ساتھ ساتھ فرشتہ نے بابر کی شخصیت ،انصاف پسندی،خوبصورتی کے لئے دیوانگی اور اس کے سلسلہ نسب پر بھی خوب روشنی ڈالی ہے۔فرشتہ نے جہاں بابر کو کبھی نماز قضا نہ کرنے والا لکھا ہے تو کبھی اسے عیاش بادشاہ کہنے سے بھی گریز نہیں کیا ہے۔فرشتہ لکھتا ہے کہ چھٹی کے دنوں میں وہ خوبصورت عورتوں کے ساتھ وقت گزارتا تھا اور اس نے کابل میں پتھر کا ایک حوض بنوایا تھا جس میں خالص شراب بھروائی جاتی تھی۔وہ اس کے کنارے بیٹھ کر راس رنگ کی محافل سجاتا تھا اس نے یہ شعر بھی حوض پر کندہ کرایا تھا :



بابر کے انتقال کے بعد ’’نصیر الدین ہمایوں‘‘بادشاہ مقرر ہوا۔محمد قاسم فرشتہ نے تاریخ فرشتہ میں ہمایوں کے بابت بھی مفصل حالات پیش کئے ہیں۔ہمایوں کے بھائیوں کے ساتھ مشفقانہ رویے لیکن بھائیوں کی طرف سے عدم اطمینان اور شیر شاہ کی وعدہ خلافی کا بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شیر شاہ نے مغل فوج پر ۱۵۳۹ء ؁ میں حملہ کر دیا۔شدید حملے کی ہمایوں اور اس کی فوج تاب نہ لا سکی اور ہمایوں کو ندی پار کر کے آگرہ بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا۔نظام سکے کی مدد سے ہمایوں آگرہ پہنچ سکا تھا۔ہمایوں نے اسے آدھے دن کی بادشاہی سونپ کر اس سے کیا وعدہ نبھایا۔ہمایوں کے آگرہ میں رہتے ہوئے کامران مرزا کی وجہ سے فوج میں بدامنی پھیل گئی جبکہ شیر شاہ کو مغل بھائیوں کے درمیان اختلاف کی خبر ملی تو وہ دریائے گنگا کے کنارے پہنچ کر ہمایوں کو للکارنے لگا۔کالپی میں ہوئی جنگ میں حالانکہ مغل فوج جیت گئی۔ہمایوں ایک لاکھ کا فوجی لشکر لے کر شیر شاہ کے حملے کو ناکام کرنے کے لئے آگرہ
سے نکل کر کنوج کے پاس پہنچا۔لیکن کامران مرزا کے بھروسے مند سپاہی اس سے دغا کر گئے۔جس کی وجہ سے ہمایوں کی باقی فوج بھی بھاگ نکلی۔ہمایوں بھی اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ گنگا پار کر کے آگرہ واپس آ گیا لیکن جب پتہ لگا کہ شیر شاہ مسلسل قریب آتا جا رہا ہے۔تووہ لاہور روانہ ہو گئے۔
قاسم فرشتہ ہمایوں کے بارے میں آگے لکھتاہے کہ لکھنوتی میں آرام کی زندگی جی رہا تھا تو اسے پتہ چلا کہ ہندال مرزا نے آگرہ اور رامپور میں قہر برپا کر رکھا ہے۔اور مرزا کا خطبہ پڑھا جا رہا ہے۔تو ہمایوں پانچ ہزار فوج کو جہانگیر بیگ کے حوالے کر کے لکھنوتی سے آگرہ کے لئے روانہ ہوا۔لیکن راستے میں ہی شیر شاہ نے اسے آ گھیرا اور بہ مشکل تمام ہمایوں آگرہ پہنچ سکا۔ایک سال بعد ہی شیر شاہ نے آگرہ پر چڑھائی کی۔ہمایوں وہاں سے بھاگنے میں کامیاب رہا۔ہمایوں نے واپسی کی اور اس نے دوبارہ آگرہ پر قبضہ کر لیا۔فرشتہ لکھتا ہے کہ ہمایوں مزاجاً بہادر تھا ۔دان کرنا اور رحم دلی اس کے کردار کی بنیادی چیزیں تھیں۔
ہمایوں کی موت کے بعد’’ جلال الدین محمد اکبر‘‘ کو بادشاہ بنایا گیا۔فرشتہ نے علامہ شیخ ابو الفضل کی کتاب’’اکبرنامہ‘‘سے جلال الدین اکبر کے بہت سے واقعات مختصر مگر جامع انداز میں پیش کئے ہیں۔اکبر نے بھی آگرہ میں بہت وقت قیام کیا۔اس نے آگرہ سے اجمیر ،دہلی وغیرہ کا سفر کیا۔لیکن واپس آگرہ لوٹ آیا۔اکبر نے ۱۵۶۴ء ؁ میں آگرہ کا قلعہ جو کہ پکی اینٹوں کا بنا ہوا تھا اس کو گرواکر لال پتھر سے دوبارہ تعمیر کرایا جو کہ چار 
سال میں تعمیر ہوا۔رنتھمبور کی فتح کے بعد اکبر نے حضرت شیخ سلیم چشتیؒ سے فتح پور سیکری میں مل کر بیٹے کے لئے دعا کرائی جو کہ قبول ہوئی۔بادشاہ اکبر نے یہاں سے آگرہ واپسی کی۔خواجہ حسین ثنائی نے شہزادے کی پیدائش پر ایک قصیدہ لکھا جس کے ہر شعر کے پہلے مصرعے سے اکبر کے بادشاہ بننے کی تاریخ اور دوسرے مصرعے سے شہزادے کی پیدائش کی
تاریخ نکلتی تھی۔اکبر نے سیکری میں رہائش اختیار کی تو یہ اس کے لئے بہت فائدہ مند ثابت ہوئی۔اکبر نے فتح پور سیکری کے نام سے بڑے شہر کی بنیاد ڈالی۔فتح پور سیکری کے ساتھ ہی اسے کئی جیت نصیب ہوئیں۔اور اس نے اسی سال گجرات پر فتح حاصل کی۔فتح پور سیکری میں اس نے مسجد کی تعمیر ۱۵۷۲ء ؁ میں شروع کرائی جو کہ ۱۵۷۸ء ؁ میں مکمل ہوئی۔محمد قاسم فرشتہ نے تاریخ فرشتہ میں علم فلکیات سے متعلق معلومات بھی فراہم کرنے کی کوشش کی۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ حالات سے کس حد تک واقف ہونے کے بعد قلم چلاتا تھا۔اس نے لکھا ہے کہ اکبر خواجہ غریب نوازؒ کی زیارت کے لئے اجمیر گیایہاں سے دہلی اور پھر کابل کی طرف روانہ ہوا۔انہی دنوں مغرب میں ایک دمدار ستارہ دکھائی دینے لگا تھا۔جس کی وجہ سے وہ کابل کا سفر ترک کر کے دار السلطنت واپس آیا اور سیکری کی مسجد کی تعمیر مکمل کرائی۔۱۵۷۹ء ؁ میں فتح پور سیکری کے فراش خانے میں آگ لگی اور بہت سا سامان جل کر راکھ ہو گیا۔فرشتہ لکھتا ہے کہ ہمایوں کی طرح اکبر کو بھی افیون(افیم) کی لت لگ گئی تھی جس سے سبھی لوگ پریشان تھے۔۱۶۰۱ء ؁ میں اکبر نے آگرہ میں سبھی صوبوں پر اپنی فتح کا اعلان کیا۔اسی کے بعد اکبر کے دو بیٹوں کی موت واقع ہوئی۔جس کے سبب اکبر بیماری میں مبتلا ہو گیا۔۵۱ ؍سال حکومت کر کے ۱۶؍ ستمبر ۱۶۰۵ء ؁ میں اکبر انتقال کر گیا۔فرشتہ نے اکبر کے پڑھا لکھا نہ ہونے کے باوجود عالموں اور علم کی عزت افزائی کرنے کا بیان بھی کیا ہے۔اس نے لکھا ہے کہ اکبر نے عام راستوں پر پانچ پانچ کوس کے فاصلوں پر ڈاک چوکیاں بنائی تھیں جن سے شاہی فرمان بہت جلد بھیجے جا سکتے تھے۔
ہندوستان میں اسلامی حکومتوں کے متعلق فارسی میں جتنی بھی کتب ملتی ہیں ان میں ’’تاریخ فرشتہ‘‘ منفرد اہمیت رکھتی ہے۔مغلیہ دورِ حکومت پر اس میں جس جامع انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے وہ کم ہی کتابوں میں دستیاب ہے۔واقعات بیان کر نے میں صحت کا اہتمام تو کیا ہی گیا ہے ساتھ ہی گرد و پیش کے ماحول کو بھی حتی الامکان پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس لئے ’’تاریخ فرشتہ‘‘تاریخ کے واقعات کے لئے اہم ماخذ قرار دی جاتی ہے۔




محمد فرقان سنبھلی
محلہ دیپا سرائے چوک کنواں، سنبھل
موبائل نمبر:9568860786

Read 3852 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com