الأحد, 16 حزيران/يونيو 2013 11:56

نیاز اختر کی کہانیوں کے اشاریے : اسلم بدر Featured

Rate this item
(0 votes)


 نیاز اختر کی کہانیوں کے اشاریے

 اسلم بدر

 دنیا کاہر انسان معلوم و غیر معلوم نفسیات کے ساتھ اپنی زندگی جیتا ہے۔ادب اور زندگی کے اٹوٹ رشتے کے سبب ، ادب بھی بغیرِ نفسیات تخلیق نہیں پا سکتا۔افسانوی ادب میں بھی اس کے اثرات سے نہ تو پریم چند بچ سکے ہیں، نہ منٹو ، نہ بیدی ، نہ گدی نہ ہی ہمارے شہر جمشید پور کے اختر آزاد ، انور امام، مہتاب عالم پرویز اور نہ ہی ’بوڑھے برگد کا انت‘ کے نیاز اختر۔الجھن اس وقت ہوتی ہے جب یہ نفسیاتی روئیے، کہانی پن کو تو کہیں دور پھینک دیتے ہیں اور افسانہ، محض نفسیاتی الجھنوں کا مکڑ جال بن کر رہ جاتا ہے۔ الجھنیں اُس وقت اور پریشان کرنے لگتی ہیں جب افسانہ نگار کسی خاص مصلحت کے تحت یادانشوری کا خود ساختہ بوجھ ڈھونے کے لئے یا ابیقوریت کی تقلید میں یا کبھی کبھی بس یونہی (تفنن طبع کی خاطر)نہایت ہی پیچیدہ راستوں پر نا معلوم منزل کی تلاش میں چل پڑتے ہیں اور چلتے رہتے ہیں۔ ان حالات میں فن تو شکار ہوتا ہی ہے ، ممکن ہے خود فنکار بھی شکار، بلکہ بیمار ہو جائے۔خصوصی طور پر آج کے افسانے اور افسانہ نگار اس چھوت کی بیماری سے بچے ہوئے نہیں ہیں۔ایسے میں اگر کبھی فلسفے کا بخار بھی چڑھ آیا تو موت یقینی سمجھئے۔ جس کا اعلان پچھلی صدی میں ہی ہو چکا ہے.....The death of an Author۔اس مضحکہ خیز اعلان کا تتمہ یہ کہ ادیب تو ادیب ، ادب بھی دم توڑ چکا ہے۔
غرض، عرض معروض یہ کہ ادب، جو زندگی کا خوبصورت ترجمان ہے ، ایسا نہ ہو کہ کسی نا قابل برداشت بوجھ تلے دب کر واقعی دم توڑ دے یا الجھنوں کا ایسا محبس ہو جائے کہ باہر سے اندر اور اندر سے باہر بیر بہوٹی جیسے مناظر تو ہوں مگر دکھائی ہی نہ دیں۔
مگرفی الوقت فلسفے کی نہیں ، صرف نفسیات کی بات کروں گا، اس لئے کہ فلسفے کا جان لیوا بوجھ بیرون ذات کا مسئلہ ہے ، اتارا بھی جا سکتا ہے۔ نفسیات کا مسئلہ اندرون ذات کا ہے۔ اکثریہ پتا ہی نہیں چلتا کہ کس چور دریچے سے کون گھس آیا ہے اور اندرون خانہ کیسی لوُٹ مچا رکھی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ چور دریچے بند رکھے جائیں یا کھُلے۔سچائی یہ ہے کہ بند دریچے، کھلے دریچوں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ایک سنہری لکیر یہ کہ ایسی صورت حال میں نفسیاتی علاج شرطیہ اور تیر بہدف ہے۔بیماری نا قابل علاج نہیں ہے۔ بس کسی تجربہ کار معالج کے ساتھ دو چار نشستوں کی ضرورت ہوگی۔
تازہ کار افسانہ نگار نیاز اختر کے افسانوں کے مجموعے ’ بوڑھے برگد کا انت‘ کا ہر افسانہ کسی نہ کسی انسانی و حیوانی نفسیات کی طرف اشارہ کرتا ہے، مگر کوئی افسانہ کہیں بھی کسی نفسیاتی مکڑ جال کا شکار دکھائی نہیں دیتا۔ شاید اسی روئیے کو افسانوی ادب میں ’کہانی پن‘ ، ’بیانیہ‘ یا ’خط مستقیم‘ پر چلنے کا عمل کہا گیا ہے۔یہ عوامل نیاز اختر کی کہانیوں میں بدرج�ۂ اتم پائے جاتے ہیں۔ میں نیاز اختر کو افسانہ نگار نہ کہہ کر کہانی کار کہنا پسند کروں گا ۔
ہماری روزانہ کی زندگی میں ان گنت واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ایسا ہی کوئی معمولی یا غیر معمولی واقعہ ، ایک کہانی کارکی سوچ میں پہلے ایک کہانی کے روپ میں جنم لیتا ہے، جسے شاعرانہ یا ڈرامائی رنگ دے کر افسانہ بنالیا جاتا ہے۔اور تب کہانی،افسانے کا روپ لے کر خط منہنی کا سفرطئے کرنے لگتی ہے۔ خط منہنی کے اس سفر میں ، ابہام، الجھنیں،استعاراتی نظام جیسے عناصر در آتے ہیں۔ کہانی یا بیانیہ کی ’سادگی کا حسن‘ ، گہنے پہن کر پر شکوہ تو ہو جاتا ، پر وقار نہیں رہتا۔قاری کی نظر ’حسن‘ پر کم ’شکوہ ‘پر زیادہ جمنے لگتی ہے .... نیاز اختر کی کہانیوں میں ’سادگی‘ ہی حسن کا زیور ہے۔ایک کلاسیکی شعرسُن لیجئے ۔
ہے جوانی خود جوانی کا سنگھار
سادگی گہنا ہے اس سِن کے لئے
میرے مطالعے کی حد تک ، موجودہ نسل کے افسانہ نگاروں اور کہانی کاروں میں مجھے اپنے شہر میں نیاز اختر کی شکل میں ایسا پہلا کہانی کار ملا ہے جس نے اپنی کہانیوں میں زبر دستی کی جنسیات یا جنسی نفسیات یا دیگر مکڑجال کی ٹھونس ٹھانس نہیں کی ہے۔ کہیں کہیں اشاروں ، کنایوں میں ایک آدھ نفسیاتی ٹچ دے کر آگے بڑھ گئے ہیں اور کہانی کو آگے بڑھایا ہے۔
’بوڑھے برگد کا انت‘کی کہانیوں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کرتے ہوئے جناب منظر کلیم کی اجمالی رائے کے بعد کچھ اور کہنے کی گنجائش نہیں رہ جاتی،تاہم اجمال کی تفسیر وتاویل تو پیش کی ہی جا سکتی ہے۔ میرا کام اب اتنا ہی ہے کہ نقطوں کا رقص دائرہ ہو جائے ۔ اس کے لئے مرکز نگاہ خصوصی طور پر دو کہانیاں’ گدھ‘ اور ’بوڑھے برگد کا انت‘ ہیں۔اپنی پسند کی دو ایک اور کہانیوں سے بھی سرسری گزر جاؤں گا۔
راقم و قاری پیشے سے ٹاٹا اسٹیل کے شعبۂ محافظت، صحت و ماحولیات سے متعلق تھا اور کسی حد تک Industrial Management سے بھی شناسائی تھی۔ اس لئے ہو سکتا ہے تاویل و تفسیر کچھ میکانکی ہو جائے ، جس کے لئے قارئین سے معذرت چاہوں گا۔ہو سکتا ہے کہانی کار کو بھی الجھن محسوس ہو کہ خواہ مخواہ میری سادہ سی کہانی کا افسانہ بنا دیا گیا۔ تاہم سن لیں۔ فیصلہ، تاویل کے بعد کیجئے گا۔
صنعتی ترقی کی بے سمت و بے مہار بھاگم بھاگ کے نتیجے میں ماحولیاتی آلودگی کے سبب کچھ حیوانی نسلوں( بشمول پرندوں) کا عنقا ہو جانا ، نئی نئی بیماریوں کا پھیلنا، موسموں کے مزاج کا بدلنا اور سنامی جیسے حادثات تو چھوٹے چھوٹے وقوعے ہیں ۔ ماہرین فلکیات و ماحولیات کا ماننا ہے کہ اگر زمین پر کنکریٹ اور چمنیوں کے جنگل یونہی اُگتے رہے اور چمنیاں یو نہی بے لاگ اور بے روک ٹوک دُھواں اگلتی رہیں تو وہ دن دور نہیں کہ ہماری زمین کو ایک بار پھر طوفان نوح کا سامنا کرنا پڑے۔اس کی دو وجہیں ہوں گی۔گلوبل وارمنگ (global warming) اور اثیری تہوں میں سوراخ (Depletion in Ozone layer)۔گلوبل وارمنگ کی بڑی وجہ تو ہمیں معلوم ہے کہ کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں ہے(جس میں گرد و غبار اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس شامل ہیں) ۔اس سے نہ صرف ہوا میں، سانس لینے کے لئے ضروری آکسیجن کا تناسب بگڑ رہا ہے، بلکہ اس سے بھی اہم یہ کہ غبار اور دھوئیں کی دبیز تہیں سورج کی اُن کار آمد اور مفید شعاعوں کے آگے چلمن ہو جاتی ہیں، جن کی زمین پر بسنے والے ہر جاندارکو ضرورت ہے۔ نتیجہ ، بیماریاں، مہا ماریاں، موت ۔
اوزون کی تہیں زمین کی سطح سے تقریباً۳۰ میل کی بلندی پرہیں اور زمین کے چاروں طرف ماسک کی صورت ، سورج کی زہریلی شعاعوں(Ultra Violet Rays )کو چھان کر ، مفید شعاعیں زمین تک اتارنے میں ہمہ دم مصروف عمل ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ اس ماسک میں سوراخ کرنے میں مصروف ہیں۔ کارخانوں سے نکلتے ہوئے دھوئیں میں ایسے کچھ کیمیائی عناصر بھی ہوتے ہیں ، جن سے اوزون کی تہوں میں سوراخ ہو رہے ہیں۔ اُن سوراخوں سے سورج کی زہریلی شعاعیں براہ راست زمینی سطح تک اتر رہی ہیں۔ ان شعاعوں کے اثر سے بھی عالم حیوانات و نباتات کی دائروی زندگی میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ مگر یہ سب بھی چھوٹے چھوٹے وقوعے ہیں۔ بڑا وقوعہ یہ کہ ان شعاعوں کے زیراثر آہستہ آہستہ شمالی اور جنوبی قطبین میں کھڑے ہوئے برف کے عظیم پہاڑ اور جمی ہوئی برف کے مہیب سمندر پگھل رہے ہیں۔ زمینی سمندروں کی سطح رفتہ رفتہ بلند ہو نے لگی ہے۔ اگر آلودگی پر لگام نہیں کسی گئی تو اثیری تہوں میں دریچے اور دروازے کھل جائیں گے ۔ تب زمین کو غرقاب ہونے سے کون روک سکے گا......آنے والی آبی قیامت کا منظر نامہ آپ کے سامنے ہے۔ صنعت کار بیدار ہوں یا نہ ہوں ، ایک کہانی کار بیدار ہے۔
اب ذرا ایک نظر صنعت کاری کی بے لگام بھاگم بھاگ پر بھی ڈال لی جائے۔ صنعت کاری کے لئے ’خام مال‘ ) (Raw Material، ’تکنیکی صلاحیت‘ (Technical Expertise)اور نفع بخش پیداوار( پیداواریت یا Productivity) کی اہمیت مسلم ہے۔ کارخانہ، کارخانہ دار اور کارخانے کے کامگار بھی اس مثلث کے زاوئے ہیں۔ ان تمام اکائیوں میں سب سے اہم اکائی ہے، نفع بخش پیداوار(محض پیداوار نہیں بلکہ ، پیداواریت) ۔ صنعت کاروں کے بیچ ’پیداواریت‘ کے فروغ کے لئے ہی قومی و بین الاقوامی مقابلے جیسی فضا قائم ہو گئی ہے ۔ایک دوسرے کے آگے پیچھے بھاگتے ہوئے یہ دیکھنے کا بھی ہوش کسے ہے کہ ’منزل‘ کوسوں پیچھے چھوٹ چکی ہے۔
پہلی کہانی ’گدھ‘ کا تھیم یقینی طور پر قومی اور بین الاقوامی صنعتی فروغ کی یک طرفہ بھاگم بھاگ ہے۔ یک طرفہ اس لئے کہ یہ ایسی کساد بازاری ہے جہاں کچھ پانے کی ہوس میں ، بہت کچھ کھویا جا رہا ہے۔
ہمارے ملک میں صنعتی فروغ کے لئے پارسیوں کو اولیت حاصل ہے۔ جمشید جی نوشیرواں جی ٹاٹا کے کپڑے کی ملوں سے ہوتا ہوا یہ کاروبار ،ٹاٹا اسٹیل تک اور پھر لا تعداد صنعتی اکائیوں تک پہنچ چکا ہے۔ نیاز اختر نے ایک ماہر سنگ تراش کی طرح’گدھ‘ کی صورت ایسا بُت تراشا ہے جس کی تصویر ان کے ذہن میں بھی تھی اور پتھر میں بھی۔ کہانی کا پس منظر پارسیوں کا Tower of Silence ہے ،جسے کہانی کار نے بہت سوچ سمجھ کر باؤلی کا نام دیا ہے۔ باؤلی سنتے ہی ذہن میں ’اندھی باؤلی‘ کا تصور ضرور ابھرے گا۔
نیاز اختر کی اس صنعتی کہانی میں ایک ایسی صنعت کاری ہے ، جہاں زرتشتیت یا پارسی مذہب ’ کارخانے کا مالک ‘(کارخانہ دار) ہے۔یاد کیجئے کہانی کا وہ ڈائیلاگ :
’’ہم پارسی اپنی لاش گاڑتے یا جلاتے کیوں نہیں‘‘
’’کیونکہ مرنے کے بعد بھی کسی کے کام آئیں‘‘
’’مسلمانوں کی لاش بھی تو دھرتی کے کیڑے مکوڑے کھاتے ہوں گے‘‘
’’چپ رہو .... ہمارے زرتشت کا یہی حکم ہے‘‘
سنگ تراش کے ذہن میں بنی ہوئی تصویر با لکل واضح ہے۔’ کارخانے کے مالک‘ کے حکم کی تعمیل ہم ’کامگاروں‘ کی ذمہ داری ہے۔کہانی کار (سنگ تراش)کے ذہن میں بنی ہوئی کچھ اور تصویریں دیکھئے۔ کہانی کی صنعت گری میں..... ’ کارخانہ‘ ہے ٹاور آف سائلنس (باؤلی)،.... ’کارخانے کے کامگار‘ ہیں منو چہر، رستم اور عادل گجدھر .....’ گدھ‘ ہے تکنیکی صلاحیت (آپ مشینیں کہہ لیں)، ’لاش‘ ہے خام مال ہے اور ’نفع بخش پیداوار‘ (پروڈکٹی ویٹی) کے طور پر حاصل ہے ،نجات ، مکتی ( مرنے کے بعد بھی کسی کے کام آ جائیں)۔ 
کہانی کی صنعت گری کا حال یہ ہے کہ ’گدھ‘ کی صورت تکنیکی صلاحیت ماند پڑ چکی ہے۔ وجہ صاف ہے، مقابل صنعت گروں کی پھیلائی ہوئی آلودگی ....تکنیکی صلاحیت کے ماند پڑتے ہی ’خام مال‘ کی کھپت میں دشواری پیش آ رہی ہے ...... تکنیک میں بدلاؤ لانے کے لئے دو فیصلے لئے جاتے ہیں ......پہلا یہ کہ باہر سے بہتر مشینیں (گدھ) منگوائی جائیں، دوسرا یہ کہ کام کرنے کے طریقے میں بھی کچھ تبدیلی ہو (سولر سِل)۔مگر نتیجہ کیا ہوا:
’’صبح منوچہر کی آنکھ کھلی۔ وہ سیدھا باؤلی میں پہنچا۔ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گیا۔ دروازہ کھولا اور وہاں کا منظر دیکھ کر اس کے پیروں میں جان نہ رہی۔ اس کے ہاتھ سے دروازہ کا پلا چھوٹ گیا اور وہ وہیں پر ڈھے سا گیا۔سامنے لاش تقریباً صحیح سلامت تھی۔ مگر چاروں طرف سے گدھ ایسے بے حس و حرکت پڑے تھے جیسے اس کا سوگ منا رہے ہوں‘‘
عجیب اتفا ق ہے کہ ٹھیک یہی حال ۱۹۷۴ء میں ٹاٹا اسٹیل کی مینجمنٹ کا ہوا تھا، جب مغربی جرمنی (تھیسن ) سے درآمد شدہ نئی تکنک اپنائی گئی اور Sponge Iron (خام مال)سے فولاد(Steel )بنانے کے لئے ایک نیا پلانٹ (Bottom Blowing Oxygen) لگایا گیا ۔ مگر تقریباً چار سو کروڑ روپئے کی لاگت سے تکمیل شدہ یہ پروجکٹ بُری طرح ناکام ہو گیا۔کمپنی دیوالیہ ہوتے ہوتے رہ گئی ، کہ ٹاٹا کمپنی تھی۔نئے پلانٹ کوفوراً پرانی تکنیک(Top Blowing Oxygen) سے فولاد بنانے کے لئے استعمال کر لیا گیا۔ 
مجھے ’گدھ‘ پڑھتے ہوئے اکثر احساس ہوا ہے.....کیا نیاز اختر ٹاٹا اسٹیل کی انتظامیہ کی اس ناکامی سے واقف تھے؟ ...... کیا نیاز اختر صنعت گری کے تمام اصول و ضوابط سے آشنا ہیں؟ .... بس دو باتیں سمجھ میں آئیں ..... وہ ایک کہانی کار ہیں اور:
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
میں ’گدھ‘ کو ایک صنعتی علامتی کہانی مانتا ہوں۔
یوں تو نیاز اختر کہ کئی کہانیوں نے مجھے متاثر کیا ہے۔ مثلاً ’ٹرمنیٹر‘، ’رنتھی‘، ’حقیقت‘، ’افعی‘،’کتّا‘ وغیرہ۔ ’ترمنیٹر‘ کا تھیم انوکھا ہے۔ نباتا تی و زرعی تحقیقات کے تحت نئی نئی فصلوں اور مختلف اقسام کے بیجوں کی دریافت سے تو واقفیت تھی ، مگر ’بانجھ بیج‘ کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔اخباروں سے کسانوں کی خود کشی کی خبریں ملتی رہتی تھیں، مگر خودکشی کی ایک وجہ ’بانجھ بیج‘ بھی ہو سکتی ہے ، نہیں معلوم تھا۔نیاز اخترکی کوشش رہتی ہے کہ اس طرح کی اَن چھوئی زمین سے کہانی کاڑھی جائے۔ 
’گدھ‘ کا تھیم تو فضائی آلودگی ہے۔ ’افعی‘ کا تھیم ’آبی آلودگی‘ کا مسئلہ اُٹھاتا ہے۔ ناگفتہ بہہ حالات کی سفاکی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ، حالات کے خلاف اُٹھنے والی آوازکو بھی صنعتی مافیا ہمیشہ کے لئے خاموش کر دینے سے باز نہیں آتے۔
’رنتھی‘ کے تھیم کو بھی مَیں ’آلودگی ‘سے ہی تعبیر کروں گا۔مگراس آلودگی کا تعلق آب و ہوا سے نہیں بلکہ انسانی اقدار سے ہے، سماج اور تہذیب سے، جس کی حد درجہ تنزلی و پستی کے اسباب ہیں ، لالچ، ہوس، کرپشن، گندی سیاست۔ہمارے ملک میں چھوٹی بڑی صنعتی اکائیوں کی بھر مار تو ہو ہی رہی ہے۔ علاج و معالجہ کے لئے’میڈیکل سنٹر‘ ، ’نرسنگ ہوم‘ ، ’کلینک‘ اور پانچ ستارہ ہوٹل جیسے ’پرائیویٹ ہسپتال‘ بھی اب نفع بخش ’بزنس سنٹر‘ ہوکر زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کی مشین بن چکے ہیں ، جہاں ڈاکٹروں کا اُٹھایا ہوا HippocraticOath (انسانی خدمت کا عہد نامۂ بقراط)، ہسپتال کے احاطے سے دور کھڑا سسکیاں لیتا دکھائی دیتا ہے اوراندرHypocracy کا تانڈو جاری ہے۔
’حقیقت‘ اور ’کُتّا‘ ،کو میں نیاز اختر کی نفسیاتی کہانیاں مانتا ہوں۔ مگر دوبارہ کہنا چاہوں گا کہ ان میں بھی نفسیاتی مکڑ جال کی پیچیدگی نہیں ہے۔ ’حقیقت‘ ازدواجی زندگی میں ’بیوی‘ کی اس نفسیات کو اجاگر کرتی ہے ، جہاں ٹوٹ کر محبت کرنے والی بیوی ،اپنے اور شوہر کے بیچ کسی تیسرے کا وجود برداشت نہیں کرسکتی ،خواہ وہ تیسرا کمرے میں در آنے والی خوبصورت سی تتلی ہی کیوں نہ ہو جو کمرے کے شو کیس میں سجے ہوئے ’مصنوعی‘ پھولوں کو حقیقی سمجھ کر عموماً آجایا کرتی ہے۔ کمرے میں تتلی کا آنا جانا چونکہ شوہر کو بہت پسند ہے اس لئے بیوی کو نا پسند ہے ۔ تتلی اس کی رقیب ہو جاتی ہے ...... اور تب ، کہانی کا اختتام یوں ہوتا ہے:
’’میں نے بیگم کو آواز دی اور پوچھا.....وہ تتلی کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔میرے غائبانے میں وہ کمرے میں نہیں آتی تھی کیا؟ .......آتی تھی، لیکن ایک دن تتلی کے آتے ہی میں نے شو کیس کا شٹر ہٹا دیا اور تمہارے ان مصنوعی پھولوں کے گلدستے کی اور تمہاری حقیقت اسے بتا دی‘‘
نیاز اختر، اس کے بعد بھی دو ایک جملے بڑھا کر کہانی کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ مگرکیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ کہانی ..... ’تمہارے ان مصنوعی پھولوں کے گلدستے کی حقیقت اُسے بتا دی ‘پر ختم ہو جاتی۔اس جملے میں’اور تمہاری حقیقت‘ بھی اضافہ ہے اور اس کے بعد کے جملے بھی۔ نفسیات کے ہر دریچے کو کھولنا ضروری نہیں ہوتا۔قاری کو کبھی کبھی تھوڑا سا پیا سا چھوڑ دینا چاہئے۔
کہانی’کُتّا‘ بھی ایک نہایت ہی حساس نفسیاتی اشاریہ ہے۔جس میں انسان و حیوان کی اپنی اپنی نفسیات بھی ہے اور دونوں کے بیچ کا ایک نفسیاتی ٹچ بھی۔ مسز نائر اور ان کے ٹائیگر دونوں کو قصداً ہوش و حواس سے محروم کر دیا گیا ۔ نشہ ٹوٹا تو اپنی انانیت کے ٹوٹ جانے کا غصہ مسز نائر نے ٹائیگر پر اتارا کہ وہ بھی اس کی حفاظت نہ کر سکا۔کتے کا نشہ ٹوٹا تو وہ شرمسار ہے کہ اس کی موجودگی میں مالکن کا سب کچھ لُٹ گیا۔ اور حیران حیران سی ایک تیسری آنکھ جو کبھی مسز نائر کو دیکھ رہی ہے تو کبھی ٹائیگر کو ۔ ٹائیگر کے انجام کے بغیر یہ کہانی ختم ہو جاتی ہے۔انجام کی یہی پیاس تو کہانی کو سیراب کرتی ہے۔اس لئے میں نے اسے ’نفسیاتی اشاریہ ‘ کہا ہے۔
کہانی کار نے جس کہانی سے کتاب کا نام تراشا ہے ، ظاہر ہے وہ کہانی اہم ہو گی۔ ڈاکٹر کوثر مظہری کے بارے میں خوب جانتا ہوں کہ وہ ’سانچے‘ والے ناقد یا مبصر نہیں ہیں، متن کا مطالعہ کرنے کے بعد ہی اپنی رائے پیش کرتے ہیں، لہذا ان کی رائے میں : ’بوڑھا برگد ‘ ہماری قدیمی تہذیبی میراث کی علامت ہے، جس کے تحفظ کے لئے ہم اپنی جان بھی دے سکتے ہیں۔
منظر کلیم کی یہ رائے کہ نیاز اختر نے اپنی کہانیوں میں قصے سے زیادہ کردار کو اہمیت دی ہے۔اور تب انہیں ’جٹا شنکر‘ ایک ایسا کردار نظر آتا ہے جو ’ملک کی آزادی ‘ کی علامت ہے۔
ان دونوں ناقدین کی آراء کا اثر مجھ پر یہ پڑا کہ مجھے ’ہندوستان کی آزادی‘ اپنی قدیم تہذیبی میراث نظر آئی اور جٹا شنکر اس کی حفاظت میں جان کی بازی لگا دینے والا ایک ہندوستانی کردار۔ اگر میں جٹا شنکر کو کہانی کا سب سے اہم کردار مان بھی لوں تو ’ہندوستانی کردار ‘ نہ مان کر ’ہندوستانی ہندو کردار‘ مانوں گا۔ 
مابعد جدیدیت کے رجحانات میرے پلے نہیں پڑتے۔ نہ میں ادب و تاریخ کی موت کا قائل ہوں ، نہ خالق و تخلیق کار کی موت کا۔نہ ہی میں تکثیریت کا قائل ہوں ، نہ اسٹرکچرل ادب و شاعری کا۔ تانیثیت بھی ایک حد تک ہی مجھے قائل کرتی ہے، حد سے گزر جائے تو ’کالی‘ کے پاؤں کے نیچے مجھے ’شیو‘ کا آکار دکھائی دینے لگتا ہے اور کالی کی حیرت و ندامت سے نکلی ہوئی زبان۔اگر مجھے ما بعد جدیدیت میں کوئی چیز بھاتی ہے توادب کی قرأت میں’قاری‘ کا اختیار اور اس کی حیثیت۔ مگر میں قاری کو یہ حیثیت و اختیار، ادیب یا ادب کو موت کا جان لیوا مژ دہ سنا کر نہیں دینا چاہتا۔
میری نظر میں نیاز اختر کی کہانیاں نہ صرف زندہ ہیں بلکہ دوران قرأت مجھ سے ہمہ وقت باتیں کرتی رہی ہیں۔مجھے دوران قرأت کہانی کار کی سوچ کی سانسیں بھی محسوس ہوتی رہی ہیں اور نبض احساس کی دھڑکنیں بھی۔ پھر بھی نیاز اختر کی کہانیوں کے ایک قاری کی حیثیت سے مجھے یہ اختیار حاصل ہے کہ میں ان کی کہانی کی تفہیم اپنے طور پر کروں۔ سو میں نے کیا ہے۔سو اب کرنے جا رہا ہوں۔
ظاہر ہے جناب منظر کلیم اور ڈاکٹر کوثر مظہری نے بھی ایک قاری کی حیثیت سے اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے کہانی کا بھر پور تجزیہ پیش کیا ہے۔جو خوب ہے ، بہت خوب ہے۔ مگر، ذرا ایک بار پھر سے آپ یہ کہانی پڑھ لیں۔ میں بطور خاص اس کہانی کے اندرون بہتے ہوئے Under Current کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں :’’(یہ برگد ) زوال پذیر مغلیہ دور حکومت، برطانوی سامراجیت ، گوری پلٹن کے جبر و استبداد کے علاوہ ہر چھوٹے بڑے حادثوں کا چشم دید گواہ ہے‘‘ ..... جٹا شنکر اس برگد کا پچاری ہے .... برگد کے ساتھ اس کا سنٹی منٹل لگاؤ ہے.... اس سنٹی منٹ میں ان کے اپنے بیٹے بہو شامل نہیں ہیں ......ایک بار برگد کی ایک موٹی ٹہنی ٹوٹ کر گر گئی تھی تو وہ یوں زار و قطار رویا تھا جیسے اس کا کوئی سگا اس سے ہمیشہ کے لئے بچھڑ گیا ہو .....جٹا شنکر جو ’انگریزو ، بھارت چھوڑو ‘ کے زمانے کا فریڈم فائٹرتھا ، آزاد ہندوستان کا فریڈم فائٹر نہیں بن سکا ،محض برگد کا پجاری بن گیا۔ 
میری قرأ ت میں اس گاؤں کی کہانی کا سب سے بڑا اور اہم کردارجٹا شنکر نہیں ، خود برگد کا پیڑ ہے۔جٹا شنکر تو برگد کا ایک سنٹی منٹل پجاری ہے۔برگد کے دوسرے چاہنے والے بھی ہیں ، مگر پجاری نہیں ہیں، پجاری بھی ہوں گے مگر ویسے سنٹی منٹل نہیں ہوں گے۔آگے آپ ایک ایک جملے کی تہہ تک اتر کے اس کی تاویل و تعبیر میں ڈوب جائیے تو شاید آپ کو ایسا لگے کہ :
برگد کا پیڑ ،غلام اور آزاد ہندوستان ، دونوں کی علامت ہے کہ زوال پذیر مغلیہ حکومت، برطانوی سامراجیت، گوری پلٹن کے جبر و استبداد کے علاوہ ہر’ چھوٹے بڑے‘ حادثوں کا ’چشم دید گواہ‘ ہے۔ اس اشارے پر بھی غور کیجئے کہ اسی برگد (ہندوستان) کی ایک موٹی ٹہنی (پاکستان) کے ٹوٹ جانے پر جٹا شنکر (ہندو ہندوستانی) زار و قطار رویا تھا ، جیسے اس کا کوئی سگا اس سے ہمیشہ کے لئے بچھڑ گیا ہو۔یہ جٹا شنکر کون ہے جو غلام ہندوستان کا فریڈم فائٹر تھا مگر آزاد ہندوستان کا فریڈم فائٹر نہیں بن سکا (صرف زار و قطار رویا) ۔ اگر اب بھی ’انتہا پسندہندو تنظیم‘ کی بو نہیں محسوس ہو رہی ہو تو اگلا اشاریہ دیکھئے .... برگد (ہندوستان) کا پجاری بن گیا۔اس اشارئے پر بھی غور کیجئے کہ اس انتہا پسند تنظیم کے سنٹی منٹ میں خود ان کے اپنے شامل نہیں ہیں۔گاندھی،امبیدکر، نہرو، رادھا کرشن،نمبودری پد، جیوتی باسو، رام منوہر لوہیا ..... یہاں تک کہ (اپنا بیٹا) اٹل بہاری باجپائی بھی۔ 
آخری بات ۔کہانی میں نیاز اختر نے اس ’بوڑھے برگد کے انت‘ کی طرف بڑھتے ہوئے قدم ہی دکھائے ہیں ۔ برگد کا ابھی انت کہاں ہوا ہے۔ برگد کا انت ہو جاتا تو کہانی کچھ اور ہوتی۔ ایک قاری کی حیثیت سے میں کہانی کار کی سوچ میں شامل ہوں ، مجھے بھی اس بات کا یقین ہے کہ اس برگد کا انت کبھی نہیں ہو گا۔ہاں!شایدڈالیاں ٹوٹتی رہیں گی،یا توڑنے کی کوششیں جاری رہیں گی۔سنٹی منٹل پجاری کی لاش ضرور لٹکے گی ، ایسے پجاریوں کا انت ضرور ہو جائے گا۔کہانی یہی تو کہہ رہی ہے۔ 

Aslam Badr, Mobile: 09631476773
email: عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.

Read 2200 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com