الأربعاء, 19 حزيران/يونيو 2013 18:17

مدعیان اردو کی چشم پوشی اردوزبان کے لئے خطرہ اردو کی بقاء کے لئے حکومت کی جانب دست سوال کرنے کے بجائے ہمیں خود آگے آ نا ہوگا :پروفیسراسلم جمشید پوری Featured

Rate this item
(0 votes)

 مدعیان اردو کی چشم پوشی اردوزبان کے لئے خطرہ
 اردو کی بقاء کے لئے حکومت کی جانب دست سوال کرنے کے بجائے ہمیں خود آگے آ نا  ہوگا :پروفیسراسلم جمشید پوری


 اردو زبان کی شیرینی اور اس میں مٹھاس کے قائل نہ صرف اہل زبان رہے ہیں بلکہ اس زبان کے شیدائیوں میں برادران وطن سمیت متعدد انگریز اسکالر بھی رہے ہیں جن میں خاص طور سے کرنل ہالرائڈ اور جان گلکرائسٹ کا نام لیا جا سکتا ہے ۔اس کے باوجود اردو زبان اپنے ہی گھر میں بے گھری کی شکار رہی ہے ،جس کے ذمہ دار صرف ارباب حل و عقد ہی نہیں بلکہ خود اس زبان کی پرستاری اور اس سے محبت کا دعویٰ کر نے والے بھی ہیں ۔جب اردو کی لسانی اہمیت اور اس کو مستقبل میں در پیش خدشات سے متعلق میرٹھ یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردوپروفیسر اسلم جمشید پوری سے گفتگو کی گئی تو انہوں نے حقائق کا اعتراف کرتے ہوئے اردو کے ساتھ سرکاری سطح پر کی گئی نا انصافیوں اور اپنوں کی چشم پوشیوں کی وضاحت کی اور اس زبان کے مستقبل سے متعلق خدشات کا ازالہ کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح ہم اردو کو خطرات سے بچا سکتے ہیں اور اس کا مستقبل تابناک کرتے ہوئے اپنے تہذیبی ورثہ کا تحفظ کر سکتے ہیں ۔اسلم جمشید پوری خود ناقد وتخلیق کار ہیں ان کی رائے کی ا ردو دنیا میں اہمیت ہے اس لئے جو انہوں نے اردو سے متعلق کہا ہے وہ کافی اہم ہے ۔اسلم جمشید پوری میرٹھ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے بانی ہیں ،اس سے قبل انہوں نے جامعہ ملیہ میں بطور گیسٹ فیکلٹی خدمات انجام دی ہیں ۔ا ن کے افسانوی مجموعہ ’’لینڈرا‘‘سمیت پندرہ تنقیدی کتب منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سے مضامین ملک و بیرون ملک کے ادبی رسالوں کے زینت بڑھاتے رہتے ہیں ۔بنیادی طور سے ان کا تعلق اتر پردیش کے مردم خیز ضلع بلند شہر سے ہے ،وا لد کی ملازمت کی وجہ سے جمشید پور میں ایک عرصہ تک قیام رہا اور ان کی ابتدائی تعلیم بھی جمشید پور میں ہی ہوئی حالانکہ اعلیٰ تعلیم انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے حاصل کی اور یہیں سے ان کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی ۔ اس لئے انہوں نے اپنی نسبت بلند شہر کے بجائے جمشید پور سے کر لی جو ان کے نام کا ایک جزء بن گیا اور اب لوگ ان کو بلند شہری کے بجائے جمشید پوری تصور کرتے ہیں ۔ ۔پروفیسر اسلم جمشید پوری نے اردو سے متعلق سیر حاصل گفتگو کی انہوں نے سب سے اہم بات یہ کہی کہ اگر اردو کو بقائے دوام دینا ہے تو حکومت کی جانب دزدیدہ نگاہوں سے دیکھنے کے بجائے خو د اس کے لئے کچھ کر نا ہو گا جس کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے خود ہم اپنے گھروں میں اس زبان کی ابتدائی تعلیم کا بندوبست کریں ،اور اس سے والہانہ محبت کرتے ہوئے بول چال میں استعمال کریں اور اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ زبان کا استعمال کرتے وقت بالکل احساس کمتری کا شکار نہ ہوں ۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی تہذیب کی شناخت اس کی زبان ہو تی ہے اور اپنی تہذیب کی بقاء کے لئے کسی سے بھیک نہیں مانگی جاتی بلکہ خود بڑھ کر اس کا تحفظ کیا جا تا ہے ۔جب ان سے کہا گیا کہ اردو زبان کو اتر پردیش میں دوسری زبان کا درجہ حاصل ہے اور اس کی تعلیم کے لئے سر کاری اسکولوں میں زیریں سطح سے لے کر اعلیٰ سطح تک اساتذہ کا بھی انتظام ہے مگر پرائمری کے اساتذہ میں لیاقت کا فقدان ہے اور بعض جگہ تو ایسے افراد کا اردو پڑھانے کے لئے تقرر ہوا ہے جو اپنا نام تک لکھنا نہیں جانتے تو انہوں نے کہا کہ اس زبان کے خاتمہ کے لئے منظم سازش کی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ ایسے اساتذہ کی تقرری کی جاتی ہے جن میں اہلیت نہیں ہو تی اور پھر ان سے اس زبان کی تدریس کے بجائے دوسرا کا م لیا جاتا ہے ۔پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ پرائمری کے اساتذہ سے بہت سے دیگر کام بھی لئے جاتے ہیں جو کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے اس سے تعلیم کے معیار پر ضرب آتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ڈائٹ میں اردو میڈیم میں ٹیچنگ نہیں ہوتی جبکہ اساتذہ کی تیاری اور ان کی تربیت کے لئے یہاں اردو میں ٹیچنگ کا نظم ہو نا چاہئے ۔ان سے جب پوچھا گیا کہ جب اردو اساتذہ سے دوسرے مضامین پڑھانے کا کام لیا جاتا ہے تو وہ احتجاج کیوں نہیں کر تے ؟تو انہوں نے کہا کہ در اصل اخلاقیات میں مرورزمانہ کے ساتھ پستی آئی ہے اور سماج کے سامنے جوابدہی کا خوف ختم ہو گیا ہے بلکہ اس سے سے بڑھ کر ضمیر نام کی چیز ختم ہو تی جارہی ہے جو سر چشمہ انسانیت ہے اب اس صورت میں ان اساتذہ سے کیا امید کی جا سکتی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی سطح پرپراؤیٹ پرایمری اساتذہ کی تربیت کا انتظام کر رہے ہیں اور میرٹھ کے نواح میں اس کے لئے مکمل انتظام کیا جا رہا ہے جہاں اساتذہ کو اردو پڑھانے کی تربیت دی جائے گی تاکہ وہ اپنے فرائض منصبی بخوبی ادا کر سکیں ۔اسلم جمشید پوری نے بتایا کہ ہم نے انجمن فروغ اردو کے تحت ’’کیپسول کورس‘‘ ترتیب دیا ہے جس میں ۳۶ گھنٹہ میں اردو زبان سکھائی جاتی ہے ۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کیپسول کورس سے بہت سے ناخواندہ افراد اردو پڑھنا اور لکھنا سیکھ جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ اس کورس کی ترتیب ہی ایسی ہے کہ اگر کوئی شخص متعینہ نظام الاوقات پر عمل کرتے ہو ئے اردو زبان سیکھتا ہے تو اس کا اپنے مقصد میں کامیاب ہو نا لا زمی ہے ۔ 
پروفیسر اسلم جمشید پوری نے ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا کہ جب کافی عر صہ قبل سر کاری سطح پر اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ مل چکا ہے تو اس کو تمام محکموں اور اداروں میں عمل لا نا چاہئے ۔اردو زبان میں بھی کتبے لگانے چاہئیں ۔انہوں نے کہا اس ریاستی حکومت سے محبان اردو کوکافی امیدیں ہیں جن کو پورا کرنے کے لئے حکومت کو اب زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی اقدامات کر نا چاہئے اور اس کو حقیقت میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینا چاہئے ۔انہوں نے کہا حکومت نے مدرسہ بورڈ کی ڈگری کو مساوی تو مانا ہے ،مگر کلی طور سے نہیں بلکہ اس ڈگری کی اہمیت جزوی ہے ،انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ رویہ سوتیلا ہے کیونکہ جب مساوی ڈگری ہے تو تمام کورسوں میں داخلہ ملنا چاہئے مگر ایسا نہیں ہے بلکہ مدرسہ بورڈ کے سند یافتگان کا داخلہ صرف اردو ،عربی اور فارسی زبان میں یو نیورسٹیوں میں لیا جاتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہو نا چاہئے ۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ مدرسہ بورڈ کا قیام حکومت نے خودکیا ہے اس لئے اس کی ڈگری کو یوپی کی یو نیورسٹی ہر کورس میں داخلہ کے لئے تسلیم کیا جا نا چاہئے اس سے ان طلباء کو بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں تعاون کا موقع ملے گا اور ملک کا نام روشن ہو گا۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے اردو کو جدیدکورسوں سے لیس کیا جا نا چاہئے جس سے بچوں کا مستقبل محفوظ ہو سکے ۔پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ جس طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ڈپلوما ان ماس کمیونیکشن (اردو )شرو ع کیا ہے اسی طرح تمام یو نیورسٹیوں میں ماس میڈیا ،ڈپلوما ان نیوز ریڈنگ،اینکرنگ اور اسکرپٹ رائٹنگ شروع کرنا چاہے اس سے بچوں کا مستقبل تابناک ہو گا۔
پروفیسر اسلم جمشید پوری نے اردو زبان کے فروغ میں مدار س کے کردار کو ناقا بل فراموش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان مدار س نے اردو کی بڑی خدمت کی ہے اور اگر زبان باقی ہے تو انہی مدارس اور مساجد کی رہین منت ہے ۔انہوں نے کہا کہ مدارس نے اردو ادب کو ہیرے دیئے ہیں جنہوں نے زبان و ادب کی بے بہا خدمت کی ہے ۔جب ان سے کہا گیا کہ بعض مذہبی کتب تو اردو کے لئے آب حیات ثابت ہوئی ہیں مثلا مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب ’’بہشتی زیور ‘‘ جو ایک خا ص مکتب فکر میں اہمیت کے پیش نظر بچیوں کو جہیز تک میں دی جاتی تھی اس کے باوجود ان کے کردار کوفراموش کیا گیا اور زبان کے فروغ میں ان کاذکر نہیں آتا تو انہوں نے کہا کہ ہاں اردو زبان کے فروغ میں مذہبی کتب کا بھی بڑا اہم کرادر ہے مگر یہ کردا صرف زبان تک ہے ادب تک نہیں غالبا اسی وجہ سے ان کتب کو نظر انداز کیا گیا ۔ 
پروفیسراسلم جمشید پوری سے جب اردو زبان میں تخلیق اور تنقید کی حالیہ روش سے متعلق گفتگو کی گئی تو انہوں نے اس سطح پر اردو کا مستقبل تابناک بتا تے ہوئے کہا کہ تخلیق اور تنقید دونوں کا مستقبل ذمہ دار ہاتھوں میں منتقل ہو رہا ہے جو حوصلہ افزا ہے اس لئے اس سطح پر بہت زیا دہ خدشات نہیں ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے پس منظر میں ناقد تخلیق کار پر حاوی ہے جبکہ یوروپی ممالک میں تخلیق کار آزادہے ۔انہوں حالانکہ تخلیق کار کی اہمیت قبول کرتے ہوئے کہا کہ تخلیق کار کی اہمیت زیادہ ہو نی چاہئے کیونکہ تنقید کا وجود تخلیق سے ہے جبکہ تخلیق کے وجودکے لئے تنقید کا ہو نا ضروری نہیں ہاں البتہ تنقید نگار ایک تخلیق کار کو راہ ضرور دکھاتا ہے اس لئے اس کا عمل دخل صرف راہبر تک ہی ہو نا چاہئے ۔پروفیسر اسلم جمشید پوری سے جب یہ بتایا گیا کہ آپ تخلیقی ادب کے مستقبل سے بہت پر امید ہیں جبکہ بزرگ تخلیق کاروں کو بہت زیا دہ امیدیں نہیں جس کی وجہ سے وہ نئی نسل سے نا امیدی کا اظہار کرتے ہیں تو انہوں بڑی اہم اور دو ٹوک بات کہی انہوں نے کہا کہ اردو کے بزرگ ادیبوں میں سے اکثر انا نیت کا شکار ہیں اور وہ نئی نسل کی تخلیقا ت کو نہ قابل اعتنا سمجھتے اور نہ اس کا مطالعہ کرتے ہیاگر وہ نئی پود کی تخلیق و تنقید کا مطالعہ کرتے تو میری طرح ان کی بھی بہت امیدیں وابستہ ہو تیں ۔انہوں ے کہا کہ تخلیق میں نظمیہ شاعری کی تو کو ئی بات ہی نہیں ہر روز مجموعے منظر عام پر آرہے ہیں جن میں کچھ شعراء کا کلام کافی اہم ہو تا ہے جس میں نہ صرف سماجی سروکار ہو تا ہے بلکہ داخلی اور خارجی کیفیات کا بیان بڑی خوبصورت زبان میں ہوتا ہے جس میں تمام شعری تلازمات کو بروئے کار لایا جاتا ہے ۔اس لئے اس صنف کے لئے کوئی خطرہ کی بات ہی نہیں ۔
پروفیسر اسلم جمشید پور ی نے افسانوی ادب کے پس منظر میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مشرف عالم ذوقی ،اختر آزاد ،مہتاب عالم پرویز،ابرار مجیب ،ایم اسلم ،مبین مرزانئی نسل کے ایسے افسانہ نگار ہیں جن کے افسانے کافی اہم ہو تے ہیں انہوں نے کہا کہ شائستہ فاخری ،ثروت خان ،غزالہ قمر اعجاز ،قمر قدیر ارم ،نشاں زیدی ،وغیرہ بہت اچھی افسانہ نگاری کر رہی ہیں ۔پروفیسر اسلم جمشید پوری سے جب افسانوی ادب میں تجربہ پرسوال کیا گیا اور پو چھا گیا کہ ’’پوپ کہانی ‘‘کا مستقبل آپ کو کیسا لگتا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ نثری ادب میں بہت عرصے کے بعدنیا تجربہ کیا جا تا ہے انہوں نے کہا کہ پوپ کہانی کا کوئی مستقبل نہیں کیوں کہ افسانچہ اور پوپ کہانی میں کو ئی فرق نہیں اس لئے نام بدل دینے سے ہیئت نہیں بدل جاتی ۔انہوں نے کہا یہی حال یک سطری کہانی کا ہے اس کا تجربہ بھی ناکامی کا شکار ہوگا۔ پروفیسر جمشید پوری نے کہاادب میں وہی صنف زندہ رہتی ہے جس میں ادب کے تمام تقاضے ہوں ،انہوں نے اپنی ایک یک سطری کہانی سنائی کہ’’افسانہ میں زندگی ہو تی ہے لیکن زندگی افسانہ نہیں ‘‘مگر خوداس کہانی سے مطمئن نظر نہیں آئے ۔جب ان سے کہا گیا کہ کہانی کے لئے کردار اور پلاٹ کا ہو نا ضروری ہے مگر یک سطری کہانی پلاٹ کی متحمل نہیں اس لئے کردار تو ہو نا ہی چاہئے تو انہوں نے قبول کیا کہ یہ بات بالکل درست ہے اور یک سطری کہانی میں یہ عناصر مفقود ہیں ۔انہوں نے کہا کہ افسانچہ اور منی کہانی تک تو غنیمت ہے مگر اس کے بعد کے تجربوں میں دم نہیں اس لئے امید نہیں کی جاسکتی ۔
پروفیسر اسلم نے اردو تنقید کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا اردو کے تنقیدی نظریات میں بڑی وسعت ہے جو جدید تقاضوں سے لیس ہیں ۔انہوں پروفیسر ابولکلام قاسمی ،پروفیس ظفراحمد ،حقانی القاسمی ،کوثر مظہری وغیرہ کی تنقید کو اعلیٰ معیار کی بتایا ۔انہوں نے کہا کہ مدرسہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی یکجائی نے ان نقادوں کے نظریات اور زبان میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے ۔انہوں نے کہا مدرسہ اور کالج کی تعلیم کا اولین نمونہ علامہ شبلی ہیں جن کا نام بڑے احترام سے سے اس صنف ادب میں لیا جا تا ہے ۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ جب تخلیق کار مشرقی ہے اور جن مسائل کو بیان کیا جا رہاہے وہ مشرقی ہیں تو پھر نقاد مغرب کے سر چشمہ سے اس کو ملانے کی کیو ں کو شش کرتے ہیں ؟مشرقی دائرہ میں رہ کراس فن پارے چھان پھٹک کیوں نہیں کرتے ؟تو اسلم جمشید پوری نے کہا کہ جو ناقدین مغربی ناقدین کے جملے نقل کرنا ضروری سمجھتے ہیں ان کا یہ عمل مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس فن پارے کو مشرقی اصول و ضوابط کی بنیاد پر ہی دیکھنا چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ اپنے نظریہ کو پیش کرنا چاہئے یہی زیادہ بہتر ہے اور زبان ادب کے لئے یہی سود مند بھی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اب تخلیقی تنقیدکادور شروع ہو چکا ہے اور یہی سب سے بہتر تنقید ہے کیوں کہ ایک تخلیق کار بہتر نقاد بھی ہو تا ہے ۔انہوں نے کہا کہ عابد سہیل،شوکت حیات، ساجد رشید،انجم عثمانی،مشرف عالم ذوقی اور عابد سہیل وغیرہ کا نقد خالص نقاد کے نقد سے بہترہے ۔انہوں نے کہا کہ ناقدین کو لفظ کی حرمت کو بحال کیا۔
پروفیسر اسلم جمشید پوری نے تحقیق کے باب میں ایک سوال کے جواب میں کہا غالبیات اور اقبالیات پر بہت کچھ لکھا جا چکا اور اب محققین صرف جگالی کرتے ہیں اس لئے یو نیورسٹیوں کو جدیدموضوعات پر تحقیق کی جانب رجوع ہو نا چاہئے انہوں نے کہا کہ غالبیات اور اقبالیات کے موضوع پر تحقیق کے لئے اب کچھ نہیں بچا ہے اس لئے تن آسانی کو چھوڑکر ایسے موضوعات پر تحقیقی کا م کر نا چاہئے جو نئے اور اچھوتے ہوں ۔تاکہ زبان و ادب کی صحیح معنوں اور سمتوں میں پیش قدمی ہو سکے ۔
محمد حنیف خان 
سب ایڈیٹر روزنامہ ’’آگ‘‘لکھنو
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.
9359989581

Read 1634 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com