الخميس, 31 تشرين1/أكتوير 2013 22:03

منظر کاظمی... علامتی افسانے کے عظیم اسکول : جہانگیر محمد

Rate this item
(0 votes)


 منظر کاظمی...... علامتی افسانے کے عظیم اسکول 

  جہانگیر محمد


                             *عصر ی ا فسا نے کے ا علی وارفع میز ان پربہت سا رے افسا نہ نگار ہیں۔یہ ایک طویل فہر ست ہے۔ما بعد جد ید یت ، ا ظہار وا سلو ب کی تبد یلی کے بعد آج پھر ا فسا نے کو عا م راہ پر لا کرکھڑا کیا ۔ ترقی پسند ی ،حقیقت نگا ری اور رومان پسند ی کے بعد علا متی ،تجریدی ، ا ستعار ی دو ر سے گُذر تا ہو ا آج بہت سار ے سو ا لات کو لئے آج کے عہد کا ا فسا نہ آسما ن سے ز مین پر ا تر آیا ہے۔ قبو ل و ر دکی تما م سند سے بے نیاز ہو کر لیکن منظر کا ظمی ان تما م بھیڑمیں ا یسا فعا ل چہرہ ہے جس پر آ نکھیں مر کو زہو جا تی ہیں۔کیو نکہ اس نے بھیڑ سے الگ را ہیں متعین کی ہیں ۔آج منظر کا ظمی کا ا فسا نہ ا فکا ر کی بلندیوں پر بر ا جمان ہے۔ حا لا نکہ ان کے ا فسا نے کی تعداد بہت کم ہیں ۔نہ لکھنے کے باو جو دان کے ا فسا نے گہر ی فکر وں کی ، گہر ے مشاہدات سے گُذرا ہے خو دان کی ز بانی ان کا حا ل سنئے ہما ے ا ندرقصہ سنے اور سنا نے کا جذ بہ شریا نو ں میں دوڑنے والے خو ن کا مطا لبہ ہے ۔ لہذا ا یسا سوچنا و قت ضائع کر ناہے کہ و ہ آدمی جس نے کسی ز ما نے میں غذا حا صل کر نے کی مشقتو ں سے ا نکا ر کر د یا ،کا ہل تھا درا صل اس کا جسم بھی اس کے ر فیقو ں کی طر ح تو ا نا تھا مگر ان کا ذ ہن اس کے جسم سے زیا دہ قو ی تھا ۔اسکے سا تھیو ں کی آ تیں جلتی تھیں اور اس کے دل میں آگ لگتی تھی۔ اس کے سا تھی جنگلی جا نوروں کا پیچھاکر تے تھے اور وہ خو بصورت پر ند وں جیسے آبشا رو ں رم جھم کر تی بر سات ،بلند پہاڑ و ں ،پھیلے ہوئے مید ان پاگل کر د ینے وا لی چا ند نی اور سر پٹکتے سمندر کی بے تابی پر ا پنا دھیا ن ر کھتا اپنے اوقا ت اس طر ح گذ ارنے پر وہ ا بتد ا میں نا پسند ید ہ قر ا ر د یا گیا اس پر فا قے بھی گذرے کہ جنگلی جا نو روں کے شکار میں اس کا کو ئی حصہ نہ تھا ۔ مگر و ہ ا پنی د ھیان کی دنیا میں مگن رہا۔ پھراس نے تھکے ماندے لیکن شکم آسو دہ لو گوں کو ا پنے د ھیان کی باتیں سنائیں، اور یہ سلسلہ طو یل ہو ا تو لو گ خو شی خو شی اور بد لے میں ا سکے تجربوں اور مشا ہدوں کی با تیں سننے لگے اور یوں دنیا میں پہلی با ر افسا نہ کا جنم ہو ا ۔افسا نہ نئی تہذیب کا لفظ ہے ۔اس سے پہلے بھی اس کا م کی پہچا ن کے لئے مختلف اوقا ت میں الگ الگ لفظ ا ستعما ل کئے گئے ۔ لفظ کسی خیا ل کے ا ظہار میں کا م آتا ہے اور یہ بھی درست کہ آج تک کسی خیا ل کے ہو بہو ا ظہار میں لفظ نا کا م رہے لہذ ا کا م چلا نے کے لئے جو ا لفا ظ ہاتھ لگیں ا نہیں غینمت جا ننا چا ہیے ، لیکن ہم جسے آج افسا نہ کہتے ہیں یا کہا نی کا نا م د یتے ہیں یا کبھی دا ستا ن کہہ کر پکارتے ہیں ان سب کے پیچھے ا صل مسئلہ قصہ کا ہے ۔ 
یاد نہیں ہے کہ وہ کو ن سی گھڑی تھی کہ قصہ سنتے سنتے قصہ سنانے کی ایک با ت سا منے آکر ٹھہر گئی ہز ار کو شش کے با و جو د ند ی ،تالا ب ، پنگھٹ ،چا ند نی اور چو پا ل کی یا دوں کے سا ئے ذ ہن کی د ہلیز سے نہیں اتر ے اور جد یدمعاشرے میں زند گی جینے کا سا را فر یب کبھی کبھی پشت پر سوار ہو کر مخا لف سمت سفر کی ترغیب دلا تا ہے ۔ لیکن ہم ہیں کہ بہر طو ر سے عہد کے لوگوں میں شمار کئے جا نے کی تمنا ر کھتے ہیں ہرآن آگے بڑھنے کی کو شش میں لگے ہیں اور یو ں کمر جھکتی جا تی ہے اور قصہ پیچیدہ ہو جا تا ہے تمام افسا نو ں کا بس ایک ہی قصہ ہے ۔ قصہ ا فسا نہ کب بنا یہ ا ک ایسی کہا نی ہے جس کی ا بتدا کا کو ئی ا ندا زہ نہیں ا لبتہ چھٹی دہا ئی کے آس پاس کا ز ما نہ یاد ہے کہ جب ہم نے کبھی سٹر ک کی نرم نرم د ھو ل کی ر فا قت چھوڑی اور کو لتار کی سٹر کو ں سے لپٹ گئے تو ا پنی ذا ت خو د ایک کہا نی بن گئی ۔ہما ری تحریر کہ جس پر و قت کے تیس سال گز چکے ہیں ہما ر ی ذا ت کا وہ منظر نا مہ ہے جس کے پس منظر سے ا فسا نہ نگا ری کے نا م پر نوحہ خوانی کی آواز ا بھرتی رہتی ہے ۔ و یسے قصہ کہنے و ا لا ہر حا ل میں قصہ کہے گا اور ا پنی حا ل کی کہے گا سو کہہ رہاہے ۔ لیکن ہم تو ایسے عہد میں دا خل ہو گئے ہیں جہا ں عظمت آدم کا کو تصور سر سے غائب ہو چکا ہے جو ا بو ں کے طور پر بعض دا نشو روں کی تحر یر نظر آجائے تو آجائے۔

                     ور نہ عا م ز ند گی میں اس کا اتہ پتہ نہیں ہے۔ فکشن تو اد بی ا ظہا ر کا سب سے با معنی اورپُر و قا ر ذریعہ ہے ایک ا فسا نے کا سب سے بڑا کمال یہ ہو تا ہے کہ ان کا قا ر ی اس افسا نے کے ذریعہ ا پنی ذا ت سے آشناہو تا ہے ا فسا نہ جیسے جیسے اس پر کھلتا ہے اس کی ذات اس پر منکثف ہوتی جا تی ہے ۔ آدمی کی زند گی کا سب سے بڑا ا لمیہ یہ ہے کہ و ہ خو د ا پنے آپ سے وا قف ہو جائے۔ ا پنی ذا ت کے نا آشنائی کی دھند ا سی ا فسا نے کے تو سط سے چھنٹتی ہے منظر کا ظمی لفظوں اور ذ ہنو ں سے ا س طر ح آ پ کومسحورکر د یں گے کہ آپ نظرہٹا نہیں سکتے اور ان کی تحر یر وں کی یہ جا دو بیا نی ہے ان کے افسا نے میں بھی دو گنی بڑھ جا تی ہے جب اک اک لفظ صدیوں میں گم ہو جا تا ہے ۔منظر کا ظمی کا سب سے بڑاکما ل ہے، ان کی ذ ہنی ہم آہنگی ان کا پختہ مشو ر ہ، با معنی اور پر و قار اسلو ب جو ان کے ہمعصرو ں میں کہیں نہیں مل پا تا ۔ ان کے ا فسا نے کی ا ستعاری ٹیکنک اورعلا متی ا ظہا ر آپ کے ا ند رفکر وں کی شمعیں رو شن کر د یں گی اور آپ متحیر ہو ں گے ہم نے لا کھو ں ا فسا نے پٹر ھے ہیں لیکن ایسا ایک بھی نہیں ہے۔ان کی ا نفر اد یت سے آپ بھی د یکھئے ا یک وا ٹر ٹینک کی تیاری میں ہز ا ور ں گا گریں ٹو ٹتی ہیں اور اس ٹینک کو آگے بٹر ھنے کی علا مت سمجھ کرلو گ خو ش ہو تے ہیں جہاں تک ان کے دل کے قریب ہی بعض لمحوں نے ایسے گھر بسائے جہا ں شا م ہو تے ہی گر یہ وز اری اور نو حے کی د لخر ا ش آوا زیں آگے بٹر ھنے کی تما م علا متو ں کو تو ڑ پھوڑ کر ر کھ دیتی ہیں اور پس منظر ایک آ وا ز دو ر سے آتی ہوئی ملی جلی آو ا ز و ں کا ایک سرگم بلند ہو نے لگتا ہے ۔(لکشمن ر یکھا ) ۔
                 گا ؤں کے ہر یالے لہلہاتے کھیت صا ف اور شفا ف ہو ا وہ پھولو ں کی تا ز گی میں بسا خو بصو رت چہرہ اور وہ پنگھٹ او راس کی ر عنا یا ں سب کچھ جو فطر ی اور قدرتی عطیہ تھا وا ٹر ٹینک کی تیار ی نے ان ہزاروں گا گر و ں کو توڑ دیا آج تو وہ شام کی گو ری مخملی فر ش پر تھرکتے ہوئے جسم کے پیچ و خم کے سر گم کی تما م کی تمام بلندیاں دم توڑ رہی ہیں۔جسم کو بیچ کر ما ل کمانے اور اس کی نما ئش کرنے کی ہو س نے کتنے پنگھٹ اور گا ؤں کو و یران کیا ۔یہ ا فسا نہ نہیں ہے ،حقائق کی بلندیو ں سے گز ر تا ہے تو حسا س قا ری رو تا ہے ۔یہ کیا ہو ا یہی ہے آج کے عہد کا ا فسانہ ۔آگے بڑھنے کی جہد اور نا کامی ا نسانی گراوٹ۔ 
                      اسی با ب میں آج کی لا کھو ں کہا نیوں میں منشی پریم چند سے لے کر منٹو تک اور عصمت سے لے کر قراۃ العین حید رتک یہ و ہ افسا نے میں جو سطیحت سے ہٹ کر لکھے گئے ۔ اور میں صر ف آپ کو ا شا رے کر ر ہا ہو ں کہ منظر کا ظمی ا پنے عہد کے عظیم ا فسا نہ نگا ر ہی نہیں A twought of school ہیں ۔ایک آگ کا در یا ے اور ڈو ب کر جا نا ہے چند اقتبا س میرے حصے کی نیند کا...... ملا حظہ فر ما ئیں ا گر نقسیم کر نے کی شئے ہو تی تو د نیا میں سب سے ز یا دہ قا بل قدرا نسا ن کا زمانہ اس کو ما نا جا تا ۔ لیکن کا ر نا مے تو وہ قر ار پائے جو نیند ا ڑ ا لے گئے ۔ ’’میر ے حصے کی نیند‘‘
                  نیند موت کی چھوٹی بہن ہے ۔ لیکن نیند علامت ہے سکون کی معراج کی طمانیت کی آشتی کی نیند علامت ہے جینے کی اور زند گی کی مگر آج گد از بستر اور اے سی روم میں نیند کیو ں نہیں آ تی ہے۔ کہ ہم نے چین اور قر ار سب کھو دیا ہے اور بستر کے نرم مخملی آغوش میں بھی بے چینیاں ہما را مقد ر بنی ہو ئی ہیں بظا ہر ہم ا یر کنڈیشن رو م میں ہیں لیکن ا فغان اور عر اق کی مصر کی سرحد دپر برسنے وا لے اسّی لاکھ ٹن با ر ور نے ہم کو بے چین کر ر کھا ہے کے سر حدپر پناہ گز یں معصوم بچو ں کو اور عو ر تو ں اور ضعیفوں کا کیا حا ل ہو گا۔ ؟ آج آدم ا نسانیت کا کار نا مہ وہ ہے جو نیند وں کو اُ ڑا لے گئے ، سب کچھ ا لٹ گیاہے ۔
وا قعہ ا صحاب کہف سے اس خیا ل کو تقویت ملتی ہے یو ں ر قمطر از ہیں ۔
                       ایک ز ما نہ ا یسا گذرا کہ چند افراد اپنے ایک وفا دار جانور کے ساتھ اپنے شہر سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے اور بھاگے بھاگے ایک غار میں پناہ لی اور پھر ا س غار میں ا یسا سوئے کہ جب ان کی آنکھ کھلی تو پہلی با ر ا یسا لگا جیسے مقر رہ و قت ا ند از ہ پر ا پنی نیندسے جاگے۔ ’’میر ے حصے کی نیند ‘‘
                      لیکن شہر سے و یر ان غا رکی طرف کیو ں بھاگے تھے ۔؟ لا فرضیت اور بے چہرگی ، گنا ہ کے ا رتکاب سے سو ال پھر ما ضی کے کئی ادو ا ر سے گذ رتاہو ا حا ل کی طر ف ہے ۔آج بھی ہے۔ ؟اس لئے میں یہ ببانگ د ہل کہتے ہو ئے کو ئی آرنہیں کہ منظر کا ظمی ا فسا نہ نگا ر ہی نہیں ایک بلند پا یہ ا نسان کا خو اب بن کر بقول پر و فیسر قمر آعظم ہاشمی ۔
                       یہ ا فسا نو ی بیا نا ت نہیں ہیں جس وا رد ات کا محسوس اظہا ر ہیں یہ ا نسا ن کی آپ بیتی ہے ۔ اس عہد کی آپ بیتی ہے جس میں ا فسا نہ طر از کے روز و شب ملو ث ہیں اور جس میں مسلم و جو د کے چکناچورہو جا نے کی پر سو ز نوحہ گر ی کا شو رو شر وا ضح ہے ۔ منظر کا ظمی نے مشا ہد ات اور تجربات کو ا پنے تخلیقی شعو ر کا حصہ بناکر ا لفا ظ کے ا ختصا رو کفائت کے سا تھ ا فسا نو ی پیرائے میں اس طر ح منتقل کیا ہے کہ علا متو ں اور اشا رو ں کے برتا و کے باو جو د کہیں معمہ نہیں بنتا ۔ ا پنے عہد کی Sensibility کے ا ظہا ر کے لئے افسا نہ نگار نے ایسی Technicا ختیار نہیں کی ہے ۔بلکے Creative Styleو ضح کی ہے جس کی شا دا بی تو ا نا ئی معنی خیز بھی ہے اور ا ثر انگیز بھی منظر کا ظمی نے ا فسا نہ وز ندگی کو اک دو سرے سے یو ں ہم آ ہنگ مر بو ط ر کھا ہے دوئی و حد ت بن گئی ہے ۔ ایک اسی تخلیقی و حد ت جس کی حسن کا را نہ وا قفیت اور فنکارا نہ بصیرت پر گہر ے نقش قا ئم کر تی ہے اور جس کا تاثر دیر تک اور دور تک پھیلتا ہے ا فسا نہ نگار کو کیا کہنا ہے۔؟ کسی طر ح کہنا ہے۔ کیوں کہنا ہے۔ ؟ اس کا وا ضح ادراک حا صل ہے۔ اور وہ غیر مشر و ط ا نداز وا سلو ب میں اس ادراک کو ا فسا نو ی پیر ائے کے سپرد یوں کر تا ہے کہ ا فسا نو ئیت بھی قا ئم رہتی ہے اور کو ئی معمگی پیدا نہیں ہو تی ، زند گی کی گر ہیں گتھیا ں اور مختلف تہیں سامنے آتی جا تی ہیں ۔ ظا ہر ی با ت ہے اس کر ب سے گز رنے میں ریاضت اور بہت د کھ جھیلنے پڑتے ہیں تب کہیں جا کر تخلیق سنو رتی ہے اد ب کی وہ جلو ہ نما ئی جو منظر کا ظمی کی ،پہچا ن اور شنا خت ہے اور ان کے فن کو ا علی وا رفع بنا تی ہیں۔ ا تنی سی با ت لو گو ں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ ہما رے پا س سب کچھ ہو نے کے بعد بھی کچھ نہیں ہو تا اور ایک آدمی ایسا بھی تھاکہ اس کے پا س کچھ نہیں تھا پھر بھی بہت کچھ تھا اور اس کے پا س جو کچھ تھا وہ لو گو ں میں تقسیم کر تا تھا ۔ اس وقت ا یسے بھی لو گ تھے جنہو ں نے اس دو لت کو حقیر سمجھا اور اپنا منھ پھیر لیا اور اسے لو گ بھی تھے جنہو ں نے اس کی قد ر جا نی اور گھٹنوں کے بل جھکے رہے یہی و جہ ہے کہ آج ا یک شخص کو دن بھی تا ر یک نظر آتا ہے اور دو سر ے کیلئے را ت بھی روشن ہے (سیا ہ غلاف اور کا لے جر نیل ) 
                    یہ وہ زریں با ب تھے جس سے ہما ری اور ہما رے قو م کی قلعی کھل جا تی ہے کہ انبیائے کر ام کی وارثت وہ علم نبو ت تھے جس نے پستی میں آسما ن بن کر جینے کا طر یقہ سکھا یا تھا اور جس کی جٹر یں تو حید پر ہیں لیکن سب کچھ جا ننے کے بھی ہم لکشمی کے پوجا کر نے لگے اور فقط زبان کی نوک پر تو حیدا ور رسا لت کے دعو ے رہ گئے ہم نے فر عو ن اور نمر و د بنے کی تمنا کر لی ہے وہ اسو لا حسنہ بس ز بان کی نوک پر لفظو ں میں ہیں کس طر ح ما ل کمانا اور کسی طر ح آگے بٹر ھناہے ۔حر ام کیا اور حلا ل کیا ۔؟ جہا ں تک کے روس کے ا نقلا بات ز ارکی ہٹ د ھر می سا منے آجا تے ہیں اور آج ہمارے تعمیر اور محراب پر بھی بس لفا ظی ہو ر ہی ہے ۔ اِللہ ما شا اﷲکل بھی قلیل تھے آج بھی قلیل ہیں کچھ لو گ وہ شخص جس کی پشت پرچا ند چمکتا تھا ۔اگر چاہتا تو سیاہ جھیل کو پا ر کر سکتا تھا ۔ لیکن یہ با ت اسے ا چھی نہیں لگی کہ گھر میں آگ لگا کر اس نے اُٹھنے والو ں شعلوں کو حسین کہا جا ئے ۔اور جب رو شنی کے چنار کو د یکھے بغیروہ واپس ہو اتو اس کے ساتھی مغمو م ہو ئے اور اپنے آپ کو شکست خوردہ کہنے لگے۔لیکن اس شخص نے بتا یا کہ ا پنی آنکھیں کھلی ر کھو اور دیکھوکہ وہ جو بظاہر نہیں شکست معلو م ہو تی ہے ۔ا پنے ا ندر فتح کی ز بر د ست صلا حیت ر کھتی ہے ۔؟ یوں فتح ہو ئی۔
                 مگر یہ با ت سمجھ میں نہیں آتی کہ ا تنا کچھ جا ن لینے کے بعد بھی رو شنی کے د یوانے کا لے کا لے جر نیلوں سے خو ف ز دہ کیو ں ہیں۔؟ 
                 کہیں ا یسا تو نہیں کہ تعداد ان کے یہاں کو ئی جنس بن گئی ہے ؟ اور مقصد سے بٹر ا کو ئی جر نیل نہیں۔ ’’سیاہ غلا ف اور کا لے جرنیل ‘‘
                 پہلا باب صلح حدیبیہ کا ہے کہ آپ نے ھندا کو بھی معاف کیا۔
                اور وحشی کو بھی اور عکر مہ کو بھی تو صحابہ کر ا م نے جس کو شکست سمجھا تھا وہ فتح میں بد ل گئی اور دب کر صلح کر ناصحابہ کر ام کو با ر ہو ا تھا لیکن آج کے تناظر میں وہ آخر ی با ت جس کو منظر کا ظمی چیخ چیخ کر کہنا چاہتے ہیں اور وہ دعو ت ہے ایمان کی اور مقصدحیا ت کی آج ہم نے ضر ورت کو مقصدسمجھ لیا ہے اور ایما ن والے بہت ہو ں گے سمند رکی طر ح بے شمار لا تعد اد لیکن ایمان جھا گ کی طر ح ہوگا۔عیسائی، یہودی ،مسلمانوں کو اس طر ح نگل جائیں گے جس طر ح ہم نو ا لہ چباتے ہیں اس کی و جہ ایک صحا بی نے ر سو ل صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا موت سے کر ا ہیت اور دُنیا کی محبت۔ آج ہم د نیا کو بڑی چیز سمجھ رہے ہیں ۔اور آخر ت پشت پر لا کھو ں کی تعد اد میں اک جگہ بیٹھ کر روتے ہیں اور گر یہ وز اری کر تے ہیں ہم نے ا گر یہ سمجھ لیا ہے کہ لو گ ہما رے قصو ں پر سر دھنیں گے تو غلط ہے ہم ا پنے خون بہانے کا فن بھو ل گئے تو اس کر ہ ار ض پر اور کو ن ہو گا ۔جس سے ہم آنے والی سیا ہ طو فا نی را توں میں ٹھاٹھیں ما رتے ہو ئے خو ن کے سمندر کی کہا نی کا مطلب پوچھیں گے ۔
                   بقو ل منظر کاظمی ’’ا فسا نہ ایک کجلا ئی ہوئی شا م ‘‘
                   آج کے در دو کر ب کو آج کی کہا نی میں پیش کر نے کے جواز کو مزید و ضا حت کے لئے وارث علو ی سے بھی رجو ع کیجئے ۔تیکھی نگا ہ ر کھنے وا لے اس آد می کا کلیجہ بھی چھلنی ہے اور اسی کے علا قے میں عور تو ں کی ا جتماعی آبر ور یز ی کی شا ئد فلم بند ی بھی ہو ئی تھی ۔ شانتی اور اہنساکے علمبر دا ر گا ندھی جی کی جنم بھومی بھی یہی ہے ہم بنیا دی طو ر پر سب کے سب آدمی ہیں ایک آدمی ا یسا بھی ہے ۔ جوکا ر پر بیٹھ کر لوگوں کو رو ندتا بھی ہے او رکتے کاپلا بھی کہتا ہے کہ اس کی کا ر سے کچل گیا تو وہ کیا تو کیا کر ے ۔؟ آج کا وہ ہٹلر پی ایم بننے کا خوا ب د یکھ رہا ہے ۔سب سے بٹر انقصا ن تو یہ ہو ا ہے کہ بین الاقوامی سطح کا ا یک غنڈ اآج دُنیا کی پوری آبا دی کو ذلیل ور سو ا کر نے پر تلا ہو ا ہے ۔ لیڈر بننے کے لئے حلقوم کو پھاڑنا اور پھیلانا پڑتاہے ۔ادب کے لئے ہنڈی پگھلانی پٹر تی ہے ،نعرہ با ز ا پنے مہنگائی ، بھتے اور بونس کی لڑا ئی میں چلا تا ہے۔ اور گھوٹالہ کرتا ہے لیکن ا یک ادیب اپنے تخلیقی ا ظہار ،پر مر یم کی طرح خا مو ش ہو جا تا ہے ۔
                 ہر عہد میں کہا نی کو اپنے متعلقہ ماحول اور مسائل سے واسطہ رہاہے ۔ پریم چندر اپنے عہد کی کہانی لکھ رہے ہیںیہ بھی سچ ہے کہ اک بٹر ا افسا نہ کسی نہ کسی مر حلہ پر دو سر ے عہد کو بھی شر و ع کر د تیا ہے ۔ ’’ کفن ‘‘کی مثا ل لے لیجئے پر یم چندر نے اس ا فسانے سے ہما رے عہد کی ا بتدا کر دی ۔ میں تو یہ سمجھتاہو ں کہ پر یم چندرایک کہا نی لکھنے کے لئے سیکڑوں کہا نی کی مشقت اُٹھاتے رہے آج کے دردو کر ب سے آپ کی کہا مراد۔ ؟ یہ کب نہ رہا۔ ؟ کسی زما نے کی نشا ند ہی کر کے بتا دیجئے۔آدم کی پہلی اولا د قا تل ٹھہر ی ۔ نو ح کے بیٹے نافر ما ن نکلے ۔موسی کی قو م و عدہ شکن تھی عرب کی اک خا تو ن حضر ت ر سو ل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کا کلیجہ چبا گئی درد و کرب کی دا ستا ن ہر مو ڑ پر مل جاتی ہے ۔د یکھئے ا بھی چند بر سو ں ۱۹۷۹ میں اسی شہر جمشید پور میں ۱۰۷ عو رتو ں اور بچو ں کو اک سا تھ ز ند ہ جلا یا گیا پٹر ول ڈ ال کر، اپنی دو ا نگلیوں کے درمیاں کسی بھی ڈ ھا نچے کو اُ ٹھا کر مسل د یتے تو گر د بن جا تی ۔لیکن ستم د یکھئے مذ ا ق بھی اُڑا کہ پوسٹ ما ر ٹم کے لئے بوروں میں جلی ہوئی ہڈیا ں لے جا ئی گئیں ۔میں بھی کچھ ٹکر ے کلکتہ کی کا نفرنس میں جو فر قہ وا ر یت کے خلا ف ہو ئی تحفہ کے طو ر اشتراکیوں کے حو الے کر آیا ۔ آپ بتائے میر ے سا تھی زکی ا نو ر کو ما ر کر کنویں میں ڈا ل دیا گیا ۔؟ آپ بتا سکتے ہیں ؟ یہ حا د ثہ کر ب کی کس منزل پر ہے۔ ؟ ا س لئے تخلیق د کھ جھیلنے کے بعد جنم لیتی ہے ۔ بہت ہی کر ب سے گز رنا پٹر تا ہے۔ وہ ز کی ا نو رکی مو ت نہیں منظر کا ظمی کی مو ت تھی ۔ آج ہم کہا ں جی رہے ہیں۔ ؟ ز ند گی ہم پر کئی جہتو ں پر ظا ہر ہو رہی ہے ؟ اس پر غورکر تے ر ہنا چا ہئے کہ ہما را اجتما عی معاشرتی ڈ ھا نچہ کہا ں کھڑا ہے ۔؟ فلسطین سے لے کر افغان ،عر اق ،مصر ،لیبیا ،یمن اور شا م آپ کو ہر جگہ شکستگی اور ذلت رسو ائی کا سامنا  ہے کیو ں۔ ؟
             اور ا فسا نہ د نیاکی کسی بھی ز با ن کے افسا نو ں سے آ نکھ ملا کر با ت کر سکتا ہے ۔ لیکن آنکھ ملا کر کر با ت کر نے کے لئے حوصلہ اور ہمت چاہئے ہم تو غلا موں کے ذ ہن سے جتے ہیں ۔انگر یزی اد ب کی با ت کر تے ہو تے سا مر اج کو مت بھولئے اس نے دنیا کے بٹر ے حصوں پر محض حکو مت نہیں کی ا پنی زبا ن ،اپنا کلچر ،اپنی تہذیب سارا کچھ برا ہ را ست محکوم علا قو ں پر Imposeکیا ۔لو گو ں نے کبھی منٹو کو مو پا سا ں سے ملا یا تھا بٹر ی ہمت سے کا م لیا تھا ۔حا لا نکہ سچ اور بھی ہے ۔منٹو اور بید ی کے محض پا نچ پا نچ ا فسا نو ں کا انتخا ب کر لیجئے اور دنیا کے کسی زبا ن وا دب کے کسی افسا نے نگا ر کے تخلیق کے سا منے ر کھ د یجئے۔ دیکھ لیجئے آپ کا سر کتنا اونچاہو گا ؟ لیکن یہ کا م کو ن کر ے ۔سب ار دوو الو ں کی ذمہ داری ہے ۔

              پھر subjectکی طر ف سمٹ آؤں بقو ل یو سف جما ل کے منظر کا ظمی  ادب کی وہ پر بہار شخصیت ہیں جواپنے ا فسا نو ں میں ا نفر اد ی لب و لہجہ کی و جہ سے مسلم شنا خت کا در جہ ر کھتے ہیں ، ا پنی بھر پور تخلیقیت سے آج کے ا فسا نہ نگا رو ں کی انبوہ میں وہ جدا گا نہ اور بلند و با لا قد کے حا مل ہیں اور یہ او صا ف جلیلیہ بہ پنا ہ بے پناہ محنت اور ریاضت سے حا صل ہو تے ہیں ۔
              بلا شبہ ’’ لکشمن ریکھا ‘‘ منظر کاظمی کا ا فسا نو ی مجمو عہ اد ب میں ایک سنگ میل کا در جہ ر کھتا ہے ۔اس مجموعہ سے افسا نے میں علا مت نگار ی کے ایک نئے اور خوش رنگ باب کا آغاز ہوتا ہے ۔ جہاں لکشمن ریکھا افسانوی مجموعہ کی بھیڑ میں ا پنی ا ہمیت کا جا دو جگا تا نظر آتا ہے ۔و ہیں ا یک ا ہم اور بٹر ا نا م بھی ہے ۔پر و فیسر و ہا ب ا شر فی نے ر مزو ایماء کاعظیم ا فسا نہ نگا ر قر اردیا ہے ۔بلکہ باشعو ر قا ری کو پٹر ھنے کی تلقین بھی کی ہے ۔بے شک منظر کا ظمی عصر ی افسا نے میں معما ر کی حیثیت سے یا د کئے جا ئیں گے ۔منظر کا ظمی  صاحب کی فنکا را نہ ا نفرادیت اور عظمت نا قا بل فر امو ش ہے ۔میں منظر کا ظمی صاحب کو علا متی افسا نے کا عظیم ا سکو ل ما نتاہو ں آنے وا لا و قت سب عیا ں کر دے گا انشا اللہ۔

              آخری بات جس بات کا مجھے احساس واعتراف رہے گا کہ افسانہ نگاری کے بال و پر سنوارنا میں نے ڈاکٹر منظر کاظمی صاحب نور اللہ مرکدہ سے سیکھا ہے۔ جو کچھ بھی میں نے اُن سے پایا ان تمام افسانوی فکروں کو میں ابرار مجیب ، مہتاب عالم پرویز ؔ اور اختر آزاد کی تحریروں میں ڈھا ل چکا ہوں۔
              میری کتنی شامیں اس کاوش میں قربان ہوئی ہیں اس حقیقت کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جو اکیسویں صدی کے ادب میں کامیابی کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ دراصل منظر کاظمی  صاحب نے جمشید پور کو کئی بڑے افسانہ نگار دیئے ہیں ۔ آج جو بھی کاوشیں ’’ شہر آہن ‘‘ میں دکھائی دیتی ہیں اُس کے پس منظر میں ڈاکٹر منظر کاظمی صاحب کی فکری ارتقاء کا ہی کرشمہ ہے،اس لئے میں منظر کاظمی صاحب کو علامتی افسانے کا اسکول اور روحِ رواں مانتا ہوں۔ آج بھی منظر کاظمی صاحب کے افسانے کی فکری ارتقاء کو کوئی چھو نہیں سکا۔ وہ رمزو ایماء کہاں۔؟
              ادب دراصل تزکیہ نفس، تصفیہ قلب کا نام ہے۔ آپ اپنے آپ کو پہچانیں یہی ادب ہے۔ عقل میں مونچھ اور خود ستائی مجھے بالکل پسند نہیں۔ یہ ہے وہ منظر کاظمی صاحب کے اقتسابات جو میرے دل میں کچوکے بار بار وصیت کے طور پر لگاتارہا اور جس کا اعلان ضروری تھا۔
              بشیر بدر کا ایک شعر وہ ہمیشہ پڑھا کرتے تھے .......

                 خدا ہم کو ایسی خدائی  نہ  دے
                 کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے

             بہت سے ادیب اس مرض میں مبتلاء ہیں۔ غرور اور کبر کی آیتیں اس طرح پڑھتے ہیں جیسے ہیضہ عام ہو۔
             کئی بار منظر کاظمی صاحب نے مجھ سے کہا کہ مہتاب عالم پرویز ؔ کا آخری افسانہ ابھی نہیں آیا ہے ابھی وہ لکھ رہے ہیں اور بھی افسانے لکھیں گے تو آپ ششدر رہ جائیں گے کہ کیسے کیسے افسانے لکھنے ان کو باقی ہیں۔
             ویسے وہ منظر کاظمی صاحب کے بے حد چہیتے شاگرد ہیں اُن کے بتائے ہوئے راستے پر ضرور چلیں گے۔
             منظر کاظمی صاحب پرویزؔ کی بے حدتعریف کیا کرتے تھے اور ہمیشہ کہتے تھے ان لوگوں پر نگاہ رکھو آنے والے وقت کے یہ لوگ بڑے افسانہ نگار ہوں گے سمت کا تعین اصل روح ہے لکھنے کے تمام آداب بتاتے اور اسی طرح براہ راست ابر ار مجیب  ارمان شباب  سے ان کے اندر یہ بات آگئی یعنی چراغ سے چراغ جل رہا تھا۔ آپ ہمیشہ تزکیہ نفس کا ذکر کیا کرتے تھے۔
            ہم کو یاد ہے مہتاب عالم پرویزؔ کی کہانی’’ اندھیرے کا سفر ‘‘ کو منظر کاظمی صاحب نے جب پڑھا اور کئی جگہ رُکے اور ایک عجیب بات آپ کی زُبان سے نکلی کہ پرویزؔ آسمان کا وہ (GALAXY) ہے کہ لاکھوں ستارے اس میں گُم ہیں۔ یہ ہے وہ حوصلہ افزائی اللہ اُن کی روح کو منور کرے۔
            اور یہ سچ ہے ایک دن منظر کاظمی صاحب نے ہمیں بڑے ہی طمطراق سے بتایا آج میں نے پرویزؔ کی فیس معاف کر دی ایسے بچوں کی مدد بے حد ضروری ہے نہ جانے کیوں مہتاب عالم پرویزؔ سے اُن کی اُنسیت بڑھ گئی تھی۔
            اللہ ان کی قبر کو نو ر سے بھر دے آمین ۔

(ماخوذ منظر نامہ سے )
****

جہانگیر محمد

Read 3755 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com