الجمعة, 01 تشرين2/نوفمبر 2013 21:09

مہتاب عالم پرویزؔ ، میں اور میری آنکھیں : جاوید اختر MAHTAB ALAM PERVEZ , MAIN AUR MERI AANKHEN : JAVED AKHTAR

Rate this item
(0 votes)

 مہتاب عالم پرویزؔ ، میں اور میری آنکھیں

  جاوید اختر 

                 *اُردو ادب میں افسانہ کی تخلیق اِس کی وجودیت اور اس کی تعریف ابھی تک غیر واضح اور مشکوک ہے افسانہ کی تعریف اور تشریح ہماری پرائمری اسکول کے استادوں اور یونیورسیٹی کے پروفیسر وں اور ڈا کٹروں کے ذریعہ ہوتی آئی ہے اور ہو رہی ہے با لکل نہ مناسب اورمضحکہ خیزہے تعجب اور حیرت انگیز ی بھی کہ بڑے بڑے پروفیسروں بڑے بڑے ادبی ڈاکٹروں ناقدین منٹو ،عصمت ،واجدہ تبسم ،بیدی ، اوراشک کے افسانوں پر موٹی موٹی کتابیں لکھنے والے اتنے سطحی اور معمولی ذہن کے مالک ہیں کہ افسانہ کی تعریف نہیں لکھ پاتے پھر وہ اپنے پست اور قاصر ذہن کا اقرار کیوں نہیں کر لیتے کہ افسانہ نگاری ایک ایسی پیچیدہ اور غیر معمولی صلاحیت کی حامل ہے جس کی تخلیق افسانہ نگار کی غیر معمولی ذہانت اور ادبی الہامی کیفیت کے سبب وجود میں آتی ہے جس کا بیان لفظوں اور جملوں میں کرنا ایک غیر تخلیق کار کیلئے نہ ممکن سے بھی نہ ممکن ہے۔
کاش کے منٹو سے پوچھا ہوتا کہ افسانہ نگاری کیا ہے ۔تو ہمارا افسانوی اُردو ادب اتنا غریب نہ ہوتاوہ ’’کھول دو ‘‘کی افسانوی نشیب و فراز کھول دیتا ’’ بو ‘‘کی طرح پرفیوم اور پسینے کی افسانوی مہک اور خوشبوں کی نفسیات بیان کر دیتا ’’ ٹھنڈاگوشت ‘‘ کی طرح افسانے کا ڈائیگنوسس کردیتا اور ’’ ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘کی طرح سیاسی نفسیات کی عالمی وسعت بتا دیتا۔ اگر سعادت حسن منٹو ابھی تک بہ حیات ہوتے تو ہمارے نقادوں اور ڈاکٹروں کی ادبی صلاحیت پر سوائے ماتم کے اور کچھ نہیں کررہے ہوتے۔
زبان تخلیق کار کی مُحتاج ہوتی ہے اور ایک غیر تخلیق کا ر زبان کا مُحتاج ہوتا ہے ایک ادیب اور شاعر کا علم آسمانوں کی سی لامحدود عالمی وسعت رکھتا ہے لیکن ایک غیر ادیب اور شاعر زبان کی محدود حصار میں قید رہتا ہے کوئی بھی ادب اپنی معیاری تخلیقات سے ہی رِچ ہوتا ہے نہ کہ تنقید سے۔ ویسے اگر سنجیدگی سے خود تنقید کا نفسیاتی جائزہ لیا جائے تو
ایک بات کھل کر واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ تنقید ادب اور خاص کر افسانوی ادب کیلئے اتنی ضروری اور موزوں بھی نہیں اُردو ادب میں تنقید نکتہ چینی کی شکل اختیار کر چکی ہے جس کا خمیازہ خود تنقید نگار اور تنقید بھگت رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ایک تنقید نگار کو معیاری تخلیق کی نہ توتمیزرہ گئی ہے اور نہ ہی اُن کے پاس انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کا گہراعلم ہی........ یہی وجہ ہے کہ تنقید نگاری اپنا معیار کھو بیٹھی ہے سعادت حسن منٹو ،عصمت چغتائی، واجدہ تبسم ،بیدی ، اور اشک جیسے افسانہ نگاروں کی معیاری تخلیقات کے میزان پر غیر معیاری اور بونی ثابت ہوئی ہے منٹو پر لاہور کی عدالت میں فحش نگاری کا مقدمہ چلا اور بری ہوئے ہمارے تنقید نگاروں نے انہیں فحش نگار کا خطاب دے ڈالا لیکن افسانہ کی نوعیت اور نفسیات کا جائزہ نہیں لیا کہ سعادت حسن منٹو کی فحش نگاری افسانے کی نوعیت اور نفسیات کے عین مطابق ہے بھی کہ نہیں اُن کے دیگر تخلیقات جیسے بُو، کھول دو، ٹھنڈا گوشت اور کالی شلوار کو بھی فحش نگاری کے زمرے میں رکھا لیکن ان معیاری تخلیقات میں پُوشیدہ انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کا انکشاف کا تخلیقی خلاصہ اور تجزیہ کرنے میں قاصر رہے کیونکہ منٹو کے افسانے کھول دو،ٹھنڈا گوشت، کالی شلوار،بُو اور ٹوبہ ٹیک سنگھ جیسے افسانے کسی بھی تنقید نگاروں کے تنقیدی صلاحیت کے ساتھ ساتھ اُس کی تخلیقی تنقید نگاری کی بھی صلاحیت کا مطالبہ کرتے ہیں اور کسی افسانے کا نفسیاتی خلاصہ اور تجزیہ ہر نقاد کی تخلیقی تنقید نگاری کی ذہانت اور قابلیت کا امتحان اور میزان ہوتی ہے کیونکہ اردو کے سب سے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے بالا تحریر کردہ افسانوں کی تخلیقی تنقید اُن کا خلاصہ اور تجزیہ ایک پورے ناول جیسی ضخامت کا مطالبہ کرتے ہیں ۔
اُردو ادب میں تخلیقی تنقید کا فقدان رہا ہے انگریزی ادب میں ہمیشہ سے تخلیقی تنقید کی روایت رہی ہے جس کے باعث انگریزی لٹریچر اتنا رچ اور ضخیم ہے۔ انگریزی ادب میں نئے آنے والے فکشن رائٹر اور شاعر بہت جلد اپنی جگہ لٹریچر میں مقّرر کر لیتے ہیں اُ ردو ادب میں خاص کر افسانوی تنقید غیر موضوع اور غیر مناسب ہے تخلیقی تنقید یقینی طور پر مفید اور کارگر ہے ۔ صرف تنقید ادب میں تخریب کاری کا کام کرتی ہے جس میں ذہانت اور قابلیت کا فقدان ہوتا ہے جس میں تنقید نگارکی اپنی غیر تخلیقی رائے کی ہی فراوانی ہوتی ہے کوئی بھی افسانہ نگار افسانوں کی تخلیق ادب کیلئے کرتا ہے نا کہ تنقید نگاروں کیلئے، ادب کی شادمانی خوشحالی اور سر خروئی تخلیقات کی دین ہے ناکہ غیر تخلیقی تنقید کی ۔
پلک جھپکنے کے لمحہ سے بھی کم تر وقت میں انسانی دماغ کے بہت ہی لاغر اور ضعیف گوشے سے تپاک سے یہ سوال اُبھر کر سامنے آسکتا ہے کہ یہ تخلیقی تنقید ہوتی کیا ہے؟ کہاں سے آئی ،اس کا گھر کہا ں ہے۔؟ 
یہ پیدا کہاں ہوئی؟ پروان کہاں چڑھی کتنی نوخیز کتنی جوان ہے یہ ۔تو جناب عالیٰ یہ تمام عالمی ادیبوں اور شاعروں کی دین ہے اِس کی وسعت عالمی ہے یہ ہر ایک تخلیق کار کے ذہن میں ہمیشہ سے جوان اور حسین و جمیل رہی ہے یہ کبھی بوڑھی نہیں ہوتی اس کے ہارمونس ہمیشہ نوخیز رہتے ہیں۔
منٹو کا افسانہ ’’کھول دو‘‘ کا تخلیقی تنقید تجزیہ اور اُس کا خلاصہ تھوڑا سا کچھ یوں ہے ۔سعادت حسن منٹو کی سکینہ کی نفسیات پورے وثوق سے کہتی ہے کہ اُس کے ساتھ زنا کرنے والوں میں ایک یا دو چہرے ایسے ضرور رہے ہونگے جنہیں سکینہ روز انہ دیکھتی چلی آئی تھی اور یہی وجہ رہی ہوگی کہ سکینہ اُن لوگوں کے ہمراہ جانے کیلئے فوراتیار ہو گئی ہو گی یا پھر تھوڑی کشمکش کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی ہمراہ ہو لیا ہو اُنہوں نے سکینہ کو پُورے یقین اور عتماد میں لیا ہوگا ایسے لوگ کافی میٹھی اور مہذب زبان استعمال کرتے ہیں اللہ رسول کا واسطہ ضرور دیا ہوگا ۔ 
’’کہ تو ہمارے ہمراہ چل تیرے رشتے داروں سے تجھے ملا دوں گا تیرے ابّا امّی وغیرہ کو ہم لوگوں نے ہی فلاں کیمپ میں بہ حفاظت پہنچا دیا ہے تو ڈر مت ہماری بہنیں بھی کیمپ میں ہیں ہم لوگ رضا کا ر ہیں ہم بچھڑوں کو ملواتے ہیں شام ہونے سے پہلے ہی ہم تمہیں وہاں پہنچادیں گے تمہارے ابّاجان کہہ رہے تھے کہ بیٹا تم لوگوں کو سکینہ کا پتہ چلے تو یہاں پہنچادینا تمہا رے ابّا جان اور امّی جان ہم لوگوں کو کافی دُعائیں دے رہے تھے کہ خُدا وحد ہ لاشریک تم لوگوں کو سلامت رکھے اور ہر بلا اور مصیبت سے دور رکھے یہ منٹوکے افسانہ ’’کھول دو‘‘ کا کوئی پیرا گراف نہیں ہے یہ میں نے سعادت حسن منٹو کا افسانہ ’’کھول دو‘‘ کا تھوڑا سا تخلیقی خلاصے کی مثال دی ہے ورنہ تفصیلی تجزیہ کیلئے کا فی ضخامت درکار ہے۔
افسانہ ’’ بازگشت ‘‘قابل مطالعہ اور معیاری ہے یقین نہیں ہوتا کہ اِن افسانوں کا خالق چند میلوں کے فاصلے پر رہتا ہے افسانے کا اسلوب اور ٹریٹمینٹ افسانے کی نوعیت کے عین مطابق ہے کیونکہ افسانے کی نوعیت اپنے اسلوب کا تعین خود بخود فطری طور پر کر لیتی ہے۔ افسانوی ادب کے نقطہ نگاہ سے غیر فطری اور غیر موضوع اسلوب کا استعمال افسانہ نگار نے نہیں کیا ہے افسانوں میں اسلوب کی روانی اور تسلسل بر قرار ہے کہیں بھی سلسلہ منقطع ہوتاہوا محسوس نہیں ہوا خاص کر افسانہ ’’ باز گشت ‘‘کافی معیاری افسانوں کی فہرست میں شامل ہُوچکا ہے افسانہ ’’ بازگشت ‘‘کا موضوع کافی بولڈ اور پیچیدہ ہے مہتاب عالم پرویز نے ’’ بازگشت ‘‘ کی تخلیق کر افسانوی ادب میں ہیومن سائیکولوجی اور اُس کی پیچیدہ نشیب و فراز کا انکشاف کیا ہے غیر معمولی ذہانت اور قابلیت کی افسانوی ادب میں مثال قائم کی ہے علم شاہد ہے کہ کوئی بھی افسانہ نگار اپنی چند معیاری تخلیقات کی دین سے ہی ادب میں اونچا اور بڑا مقام حاصل کرتا ہے غیر معیاری افسانوں کا انبار لگاکرکوئی بھی افسانہ نگار ادب میں مقام حاصل نہیں کرسکتا ہے۔
جس طرح اُردو ادب کے سب سے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے ٹھنڈا گوشت ،بو ،کالی شلوار ،کھول دواورٹوبہ ٹیک سنگھ جیسے معیاری افسانوں کی تخلیق کر اُردو افسانوی ادب کو آسمانوں جیسی بلندی اور وسعت عطا فرمائی ہے اُسی طرح مہتاب عالم پرویزؔ نے افسانہ ’’ بازگشت ‘‘تخلیق کر ادب کے معیار میں اضافہ کیاہے مہتاب عالم پرویزؔ کا یہ افسانہ ایک ادبی شاہکار ہے یہ ایک تخلیق کار کے ادبی الہامی کیفیت کا حیرت انگیز نتیجہ ہے ورنہ اُردو ادب میں ایسے معیاری افسانوں کا فقدان رہاہے کیونکہ اتنے حساس اور پیچیدہ موضوع کو افسانہ کی شکل دینا خشک چٹّانوں میں ایک نحیف سی ہریالی کے تصّورات کے مترادف ہے افسانے کا مرکزی کردار وہ شخص کا نفسیاتی تجزیہ اور تفصیلی خلاصہ ہی افسانے کی اہمیت اور معیار کی غمازی کرتا ہے افسانہ ’’بازگشت ‘‘ کو نہ تو تنقید نگاروں کی ضرورت ہے اور نہ ہی تنقید کی ۔بعض تخلیقات اتنی ذہین اور معیاری ہوتی ہیں کہ اُن کو کسی کی رائے، کسی کی ادبی علم ،یا پھر کسی کے سہارے کی، ضرورت کی بھی نوبت نہیں آتی۔
’’باز گشت ‘‘ انہیں افسانوں میں سے ایک ہے ۔رٹے رٹائے تنقیدی جملوں ، لفظوں اور پیرا گرافوں کا محتاج نہیں ایک اچھا ادیب اور شاعر کبھی بھی تنقید نگاروں کی طرف نگاہ اُٹھا کر نہیں دیکھتا ،نہ کبھی دیکھنا چاہیے اور نہ ہی کبھی اہمیت دینی چاہئے ۔
افسانہ ’’بازگشت ‘‘کا وہ بے نام حسّاس اور اِبنارملشخص فسادات سے پہلے یقینی طور پر اپنی نجی زندگی میں بالکل سیدھا سادہ اور خوش مزاج شخصیت کا مالک تھا دورِ حاضر کے انسانی مکاریوں اور سیاسی قلابازیوں سے ناواقف اُس شخص نے بڑی پیا ری اور بھولی طبیعت پائی تھی ۔ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ آبادی والے محلّے میں اُس کا تین کمروں والا آبائی مکان تھا بغل میں حاجی حکیم الدین کا شاندار چار منزلہ مکان بھی تھا گورنمنٹ آف انڈیا کے انکم ٹیکس کے دفتر میں چپراسی تھے پتہ نہیں اتنی دولت اُن کے پاس کہا سے آئی تھی کہ چار بار حج کر چکے تھے۔ اُن کے دونوں بیٹے سعودی عرب میں پلمبر مزدور تھے۔ حاجی صاحب کی محلّے میں کافی آؤبھگت تھی۔اور یہی وجہ تھی کہ حاجی صاحب تھوڑا سا مغرور بھی ہوگئے تھے ورنہ حج کرنے سے پہلے کافی اخلاق مند اور مخلص شخص تھے۔ جیسے جیسے خُدا نے انہیں رزق سے نوازا وہ بخل کرنے لگے ۔ پہلے کیامجال تھی کہ اُن کے گھر سے کوئی فقیر یا فریادی خالی ہاتھ لوٹ جاتا، سیدھا سادہ وہ شخص حاجی صاحب کو اپنے پتا جی کے سمان عزت واحترام کرتا تھا۔اچھے پڑوسی جو ٹھہرے اُس کے ماں باپ نے اُس حسا س اور اِبنارملشخص کا نام بڑے پیار سے پرکاش داس گپتا رکھا تھا، یہ لوگ اُتر پردیس کے رہنے والے تھے ۔ ذات کے بنیاتھے۔ پرکاش نے بھی اپنے باپ دادا کے پشتینی کاروبار کو ہی گاؤں کی طرح شہر میں آ کر اپنا لیا۔ گھر کے سڑک والے باہری حصے میں ایک دُکان نکالی اور آٹا دال چاول مرچ مصالحے بیچنا شروع کردیا ، دُکان اچھی خاصی چل پڑی تو مسلمانوں کی عورتوں کے گہنے وغیرہ بھی گروی رکھنا اُس کے اچھے کاروبار میں شامل ہوگیا۔ دھیرے دھیرے پرکاش داس گپتا کی دُکان قصبے میں بڑی دُکا ن کہلانے لگی ، پھر اُس نے اپنی دُکان کا نام بھی گپتا اسٹور رکھ دیا تھا ۔ اُس کے زیادہ تر گراہک غریب مسلمان ہی تھے جو روز کمانے کھانے والوں میں شامل تھے۔ بحیثیت مسلمان بھی اُس کے گراہک تھے مگر اُن کی تعداد کم تھی ۔اچھی حیثیت ہوجانے کے باوجود پرکاش داس گپتا کے پیر ہمیشہ زمین پر ہی رہا کرتے تھے۔ اُس کے زیادہ تر دوست مسلمان ہی تھے وہ محلّے کے بڑے بوڑھوں کی کافی عزّت کیا کرتا تھا کیونکہ اُس کا بچپن بھی اِسی محلے میں گذراتھا اور جوانی بھی اِسی محلّے میں پروان چڑھی تھی ماں باپ کی اکلوتی سنتان ہونے کی وجہ سے اُس کی شادی بھی ۱۸ سال کی عمر میں اُس کے با پ نے کرادی تھی یوں تو اپنے شہر سے بھی اچھے اچھے لوگوں کے یہا ں سے رشتے آئے لیکن پرکاش داس گپتا کو اپنے گاؤں کی لڑکی پسند آئی جو واقعی خوبصورتی اور سندرتا کی مثال تھی گوری چٹّی دراز قد ......پریتی........
محلّے کی عمر دراز عورتیں اور کم سن لڑکیاں بھی اُس کی خوبصورتی کی تعریف کیا کرتی تھیں محلّے کے مسلمانوں کے آوارہ اور اوباش قسم کے لڑکوں کی تومت پوچھئے دن بھر اُس کے گھر اور دُکان کے آس پاس چکّر پہ چکّر لگاتے رہتے تھے یہ بات پرکاش داس گپتا کو کھٹکتی بھی تھی گھر اور دُکان فروخت کر ہندوؤں کے محلّے میں جا بسیں لیکن مرتا کیا نا کرتا اُ س کی دُکان جو اِتنی اچھی چل نکلی تھی کہ وہ مجبور تھا اور پھر باپ دادا کے بنائے ہوئے مکان فروخت بھی نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اِسی مکان سے اُس کے بچپن کی تمام یادیں وابستہ تھیں ماں بابو جی کی آتما اسی گھر میں بسی تھی اُن کی بڑی بڑی تصویریں دُکان اور گھر کے ایک بڑے کمرے میں لگا رکھی تھیں جس پرروزانہ وہ تازہ پھولوں کی مالا چڑھایا کرتا تھا لوبان اوراگربتّی کی دھوؤں اور خوشبوؤں سے اُس کی دُکا ن اور اُس کا مکان معطّر رہتا تھا۔ پھرکیسے بیچ دے وہ اس مکا ن کو۔ اپنے پرکھوں کی آتما ؤں کو کیا جواب دے گا ۔گھر کے آنگن میں پرکھوں کے دوارا بنوایا گیا چھوٹا سا مندر بھی تھا جس میں بھگوان شیوکی پوتر مورتی کی استھاپنا اُس کے دادا شیو داس گپتا نے کی تھی لیکن محلّے کے اوباش اور آوارہ لڑکوں کی مشکوک حرکتیں اور اُس کے دُکان و مکان کے ارد گرد اُن کی ہر وقت کی موجودگی ایک کربناک خاموش ٹیس بن کر اُس کے لاشعور سے چپگ گئی تھی۔ خیر شادی کے دوسال بعد ہی بھگوان نے خوبصورت سی پریتی کو ایک خوبصورت بچی پردان کیا۔گھر میں چارو ں طرف خوشیاں پھیل گئیں دوسرے ہی دن پرکاش داس گپتا نے ہندو ؤں اورمسلمانوں کے گھروں میں میٹھائیاں بٹوائیں اور گھر میں پوجا پاٹھ کروایا محلّے کے اوباش اور آوارہ قسم کے لڑکوں کو بھی خاص کر بلوایا کر اُن کے ہاتھوں میں میٹھائیاں دیں اور بڑے ادب اور پیار سے کہا تمہاری بھتیجی پیدا ہوئی ہے میٹھائیاں کھاؤ اور خوشیاں مناؤ۔
حاجی حکیم الدین کے یہاں تو اُس نے پورے ایک کیلو کا پیکیٹ ہی اپنے ہاتھوں سے پہنچایا۔سیدھا سادہ پرکا ش ارپنا کے جنم پر بہت خوش تھالیکن اُسے کیا پتہ تھا کہ چند دنوں بعد ہی یہ شہر یہ محلہ شمسان بن جائے گا۔
خاص کر اُس کی پتنی پریتیؔ کے لئے جس سے وہ والہانہ محبت کرتا تھا رات کے آٹھ بجے تھے وہ حسبِ معمول وہ اپنی دُکان میں گراہکوں کو سامان دینے میں مشغول تھاکہ اچانک محلّے کے ماحول میں چہ میگوئیاں ہونی شروع ہوگئیں اوّل تو اُس نے اس پر دھیان نہیں دیا لیکن تھوڑی دیر بعد جب شور و غل چیخ و پکار اوربھاگ دوڑ کی آواز یں گونجنے لگیں اور اُس کی سماعت سے ٹکرائیں وہ گھبرا اُٹھا ،گراہک بھی دُکان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اُس کے حواس گم ہوگئے تھے تھوڑی دیر تک تووہ دُکان کے ترازو کو پکڑ کر بے حس و حرکت کھڑا رہا ................... پھر ہوش آتے ہی پریتی کو زورسے آواز دی کہ باہر نکل ارپنا کولے کر .............فساد پھوٹ پڑا ہے سارے شہر میں ۔
ابھی وہ دُکان کی لائٹ آف کر شٹر گراہی رہا تھا کہ ایک بڑا سا پتھر لٹکے ہوئے ترازو کو توڑتا ہوا دُکان کے اندر جا گرا۔ اور اسی کے ساتھ محلّے میں ’’نعرہ تکبیر ‘‘ اور’’ بجرنگ بلی کی جے‘‘کی آوازیں فضاؤں میں گونجنے لگیں۔
دونوں پتی پتنی ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے تھر تھر کانپ رہے تھے۔اور دونوں کے بیچ معصوم بچی ارپنا چیخیں ما رمار کر رو رہی تھی۔
حاجی صاحب اور حاجی صاحب کی بیوی اپنی چار منزلہ عمارت کی چھت پر موجود تھے ۔ دیکھتے ہی دونوں نے ببک وقت آواز لگائی گپتا بیٹا میرے گھر میں جلدی سے آجاؤ، میں تمہارا محافظ ہوں، جلدی آؤ دیر نہ کرو۔
موت کی دہشت اور خوف سے کانپتے ہوئے دونوں نے اپنی نگاہیں حاجی صاحب کی چار منزلہ عمارت کی چھت کی جانب اُٹھائی ہی تھی کہ محلّے کے آوارہ اور اوباش قسم کے بد تہذیب اور غیر مہذّب نوخیز لڑکوں کی ایک بڑی تعداد نعرے لگا تے ہوئے اُس کی دُکان اور مکان میں داخل ہوگئی ۔ اور لوٹ پاٹ شروع کردیا ،کوئی آٹے کی چھوٹی بڑی بوری لے کر بھاگ رہا ہے ،کوئی تیل کا ڈبّا ،تو کوئی گڑاور چینی کی بوری اُٹھائے بھاگا جا رہا ہے،کوئی گھر کا چھوٹا موٹاسامان ہی لے کر بھاگا جا رہا ہے حد تو تب ہوئی کہ نچلے طبقے کے مسلمان کی عورتیں بھی دُکان اور مکان کے لوٹنے میں شامل ہوگئیں۔
’’باز گشت ‘‘ کا وہ سیدھاسادہ شخص پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے گھر اور دُکان کو لٹتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔یہ وہ لوگ تھے جنہیں وہ اُدھا ردیا کرتا تھا ۔ کتنے ایسے بھی تھے جنہیں وہ پانچ سواور ہزارروپئے کی مدد آئے دن کیا کرتا رہتا تھا۔ کتنی عورتیں ایسی بھی تھیں جنہیں وہ ما ں اوربھابی کہا کرتا تھا ۔
وہ جو آٹے کی بوری لے کر بھاگ رہا ہے ، محلّے کے کانا صغیر کا لڑکا ہے ، جو کبھی کبھی آٹو رکشہ چلایا کرتا ہے۔وہ لمبا سا لڑکا جو گھر کے فریج کو با ہر نکال رہا ہے۔اُس کا باپ لڑکیوں کی سپلائی کے کیس میں کئی بار جیل جا چُکا ہے۔آئے دن پولیس اُس کے گھر میں چھاپے مارتی رہتی ہے۔وہ جو تیل کا بڑا سا ڈبّالے کر اندھیری گلی میں روپوش ہوچکاہے۔ اُس کی ماں اُس کے عمر دراز باپ کو چھوڑ کر محلّے کے ہی ایک آوارہ لڑکے کے ساتھ کھلے عام رہ رہی ہے۔
کتنوں کو وہ شناخت کرتا۔ سارے چہرے تو شناساتھے۔اُس نے جلدی سے ارپنا کو پریتی کی گود سے جھپٹا اور اُس کا ہا تھ پکڑ کر حا جی حکیم صاحب کے گھر کی جانب بڑھا ہی تھا کہ محلّے کے وہی آوارہ لڑکوں کی ٹولی اُس کے پاس پہنچی اور پریتی کو اُسی کے ہی تاریک گھر میں کھینچ لے گئے۔ پھرمہتاب عالم پرویز ؔ کی پریتی کے ساتھ وہی ہوا ۔ جو سعادت حسن منٹو کی سکینہ کے ساتھ ہوا تھا۔ منٹو کی سکینہ تو اسپتال پہنچ گئی تھی لیکن پریتی کو اسپتال لے جانے والا کوئی نہیں تھا۔نازک حسین پریتی اپنے ہی گھر میں دم تُوڑ چُکی تھی.......... کا ش کہ منٹو زندہ ہوتے تو بتا دیتے کہ سکینہ لا شعور اور تحت الشعور کے اندھیروں سے نکل کر نارمل زندگی جی پائی .......؟یا کہ ساری عمر اپنے گھر میں قید ننگی لیٹی رہی..........؟
مہتاب عالم پرویزؔ کی پریتی تو اپنے پتی کے سامنے ہی سفید الٹیوں کی تاب نہ لا کر دم توڑ چُکی تھی ۔وہ فرش پہ بالکل برہنہ تھی۔با لکل بے حس و حرکت وہ شخص اپنی معصوم بچّی کو ما ں کی ننگی چھا تی سے لگا دینا چاہتا تھا ۔مگر سفید خون کی اُلٹیوں کی غلیظ بُو نے اُسے ایسا کرنے سے باز رکھا ۔ وہ پریتی کو آواز بھی نہ دے سکا قوت گویا ئی جیسے اُس کی سلب ہو چُکی تھی ،آنکھوں میں وحشت اور دہشت سما سی گئی تھی۔دماغ ماؤف ہو چکا تھا ۔ چیخ و پکا ر آہ و بکا کی باز گشت، دھماکوں کی ہولناک آوازیں ،گولیوں کی تڑ تڑ آہٹ، آگ اور دھوؤں کا احساس اُس کے شعور سے مکمّل طور پر ختم ہو چکا تھا ۔شاید سما عت کے پردے موٹے ہوکر گدگد ہوگئے تھے۔اُس کے تحت الشعور کے گہرے تا ریک غا روں میں صرف اور صرف پریتی کی بر ہنہ لاش تھی اور جگہ بہ جگہ اُس کے شریر پر منجمد غلیظ سفید خون کے ٹیڑھے میڑھے دھبّوں کا احساس ہی ثبت ہوکر رہ گیا تھا ۔پریتی کے مرتے ہی جیسے ساری کائنا ت یک بیک بے آواز ہو کر تھم سی گئی تھی۔دوڑتے بھاگتے لوگ جیسے قدیم زمانوں کی مورتیوں کی مانند اپنی اپنی جگہ بے حس و حرکت ہوکر پتھروں میں تبدیل ہو گئے تھے ۔محلّے کے آوارہ کتّے بھی نہ جانے کہا غائب ہوگئے تھے۔جو آکثر رات، رات بھر آسمانوں کی جانب سر اُٹھاکر رویا کرتے تھے شایدوہ بھی پتھروں میں تبدیل ہو گئے تھے اُس کا شعور اور لا شعور مظلو میت اور لا چارگی کی دبیز تہوں میں دب کر رہ گیا تھا کائنات کی وہ کمزور ترین شے کے مترادف ہو گیا تھااُس کے پاس اپنی بچّی کو سینے سے چمٹائے رہنے بھر کا ذہن اور قوّت باقی رہ گئی تھی وہ ارپناکو کنگارو کے بچّے کی مانند اپنے سینے سے چمٹائے تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا محّلے سے دور سڑک کے کنارے ایک کھڈ میں جاکربیٹھ گیا وہ ساری رات ایک ہی حالت میں اکڑوں بیٹھا رہانہ جا نے کتنی سکینا ئیں اور پریتیاں اُس رات ننگی ہوئیں..........غلیظ خون کی بجلیاں پریتی کی طرح کتنوں میں سما گئی .......صبح ہوئی قدرت ہمیشہ کی طرح ویسی ہی تھی سب کچھ معمول کے مطابق تھاسورج ویسا ہی اُگاجیسے ازل سے اُگا کرتا ہے ہوائیں ویسے ہی چلیں جیسے چلا کرتی ہیں آسمان حسب معمول ویسا ہی تھازمین ویسے ہی اپنی جگہ منجمد تھی اُس کا پورا وجود ہر طرح کے احساسات و جذبات سے خالی ہو چکا تھا۔اُسے اپنی بچّی کے رونے تک کااحساس نہیں تھا ارپناکو فقط اُس کے دونوں ہاتھ قدرے سختی سے جکڑے بھرتھے عجیب سی بے حسی کی کیفیت اُس پر طاری ہو چُکی تھی کہ اُس کا وجود ہے بھی کہ نہیں .......بچّی اُس کی گود میں ہے بھی.......اور نہیں بھی، آنکھوں کی پلکیں ٹھہر سی گئی تھیں صرف اُس کی آنکھوں کی پتلیوں میں تھوڑی سی جنبش باقی رہ گئی تھی کہ کبھی خلاؤں میں کچھ تلاش کرتی ہوئی محسوس ہوتیں تو کبھی اپنے ہی وجود میں تھوڑی دیر پھسل کر رہ جاتیں جیسے کوئی ایک بے حد ٹھنڈی شے اُس کے وجود میں سرایت کر گئی ہوجس کے زیر اثر اُس کا وجود ایک ہی جھٹکے میں بے حس اور ازحد کمزورہو کر رہ گیا ہوتبھی تو گشتی پولیس والوں کے کئی با رآوازیں دینے کے با وجود وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوا تھا۔ اور اُسے یہ بھی احساس نہیں ہوا کہ کئی پولیس والے بندوقیں تا نے اُس کے پشت پر آکر کھڑے ہوگئے ہیں۔پولیس والوں نے اُس شخص کو بچّی سمیت شہر کے صدر اسپتال میں پہنچا دیا ،اتِفاق سے اُس کی پڑوسن نادرہ بھی کئی دِنوں سے اسی ہسپتا ل میں زیر علاج تھی۔جس کی دودھ پیتی ہوئی ایک بچّی اور شوہر بھی اِسی فساد کی نذرہوگئے تھے ۔شاید قدرت ہی اُسے ہسپتال میں نادرہ کے بستر کے قریب لے آئی ۔ پتہ نہیںیہ ایک ماں کی ممتا تھی یا پھر ایک جوان عورت کی نفسیاتی اور جسمانی لذّت کا جذبہ کہ اُس نے تپاک سے بچّی کو اُس شخص کے ہاتھوں سے لے کر اپنی بے حجاب عریاں چھاتیوں کو کھول کر بچّی کو بڑی بے تا بی سے دودھ سے لگا دیا۔ اور اپنی آنکھیں مانو چند لمحوں کے لئے موندسی لیں۔ اُسے یہ بھی خیا ل نہیں رہا کہ بھیڑ سے بھرے پورے ہسپتا ل میں اُس کے بیڈ کے قریب ایک جوان شخص کھڑا ہے۔جس کی آنکھوں کا مرکز اُس کی خوبصورت سڈول عریاں چھاتیاں ہیں۔ 
اُس کی بے سبب نگاہیں کچھ دیر تک ہسپتال کے بیڈوں پر پھسلتی رہیں۔پھر بڑے خاموش قدموں سے ہسپتال کے باہر سڑک پر آگیا ۔ بہت جلد شہر معمول پر آگیا زندگیاں پھر سے چلنے لگیں۔ارپنا نادرہ کا دودھ پیتی رہی اور زیبابن گئی۔
اُدھر وہ شخص ننگ دھڑنگ ، میلا،کچیلا،شہرکی سڑکوں، چوراہوں،گلیوں اور محلّوں میں گھومتا رہا۔شہر میں فسادات کو تھمے ہوئے اچھا خاصہ عرصہ گزر چکا تھا۔لیکن اُس کے جسم پر آج بھی فساد والے دن کے ہی کپڑے موجود تھے جو جگہ بہ جگہ پھٹ گئے تھے۔جس سے اُس کی شرم گاہیں واضح طور پر دکھائی دینے لگی تھیں۔وہ اپنے جسم کی عریانیت سے با لکل نا واقف تھا۔ٹھیلوں اور فٹ پاتھوں پر پھل بیچنے والے روزانہ اُسے کچھ نہ کچھ کھانے پینے کو دے دیا کرتے تھے۔اکثر وہ نادرہ کے یہاں بھی بے تکلّف گھس جایا کرتا تھا ۔ سماعت اور گویائی ابھی بھی اُس کی مشکوک تھی۔زباں سے کچھ نہ بولتا ۔ بس اپنی وحشت اور دہشت بھری ویران سرخ آنکھوں سے درو دیوارں کو تکا کرتا۔کبھی اُس کا دل چاہتا تو زمین پر اکڑو بیٹھ کر اپنی ننھی منّی ارپناکو کھیلتے کودتے دیکھتے رہتا، بنا پلک جھپکائے دیکھتے ہی جاتا ..........دیکھتے ہی جاتا ..........
جب کبھی بھی وہ نادرہ کے یہا ں جاتا تو نادرہ اُسے بنا کھلائے جانے نہیں دیتی۔وہ با ت کرنے کی کوشش کرتی کہ وہ کچھ بولے، لیکن وہ ہمیشہ کی طرح خاموش ہی رہتا ۔ مانو زبان اُس کے منھ میں تھی ہی نہیں..........نادرہ کے یہاں کھانا کھا کر کبھی تو گھنٹوں یوں ہی بیٹھا رہتا ۔ تو کبھی کھانا ختم ہوتے ہی بڑی تیزی سے نادرہ کے گھر سے نکل جاتا جیسے اُسے کچھ یاد آگیا ہو....... نادرہ اُسے پکارتی رہ جاتی لیکن وہ ٹھہرتا ہی نہیں ۔بھاگتا ہی جاتا ....... بھاگتا ہی جاتا ....... محلّے سے دور بہت دور اُسی سڑک کے کنارے والے کھڈ میں جا کر سہما سہما دُبک کر بیٹھ جاتا ۔ جہاں وہ پہلی بار فسادات والی رات اپنی پھول سی بچّی کو لیکر پناہ لی تھی۔اکثر اُسے محسوس ہوتا کہ اُس کے بے حس وجود کے گوشے گوشے میں اچانک خاموش دھماکے شروع ہوگئے ہیں۔آسمانوں کی وسعتوں تک پہنچی ہوئی ہولناک نعروں کی آوازیں ....... معصوم لوگوں کی چیخ و پُکا ر جس میں اُس کی پریتی کی بھی چیخیں شامل ہوتیں۔
فسادات والی رات کا پورا منظر اُس کے ذہن کے پردے پر اُبھرنے لگتا.......دونوں گھٹنوں کے بیچ وہ اپنے سر کو یوں پیوست کرلیتا مانوں کسی عورت کے حمل میں سکڑا ہوا پل رہا ہو جہاں صرف تاریکی ہی تاریکی ہے خوف ہی خوف ہے یہی وہ خوفناک لمحہ ہوتا جہاں وہ اپنے آپ کو دُنیاکی کمزورترین شے کے مترادف سمجھتااکثر و بیشتر وہ ایسی ذہنی کیفیت سے گزرتا....... کبھی کبھی تو اُس کے اوپر ایسی کیفیت گھنٹوں طاری رہتی وہ اپنے محلّوں کے چھوٹے چھوٹے بچّوں سے بھی ڈرا کرتا کبھی کبھی تو محلّے کے بچّے اُسے گھوڑا بننے کا حکم دیتے اوور وہ فوراگھوڑا بن کر بچّو کو اپنے پیٹھ پر سوار کر لیتاباقی بچّے چل میرے گھوڑے گپتا اسٹور کہتے ہوئے اس کے آگے پیچھے چلنے لگتے اور وہ واقعی بچّوں کواپنی پیٹھ پر سوار کئے محلّے اور گلیوں سے گزرتاہوااپنے بوسیدہ مکان میں آکر رک جاتا بچّے اتر کر بھاگ جاتے وہ بھی بوجھل قدموں سے ادھ جلے گپتا اسٹور کے بورڈ کو دیکھتا ہوا کھنڈرنمااپنے گھرمیں داخل ہوجاتا ، جہاں لوگوں نے اُس کے دُکان کو پیشاب خانہ اور سارے گھر کے کمروں کو کوڑادان بنا ڈالا تھااچھے اچھے مہذّب لوگ بھی اُس کے گھر میں جاکرپیشاب اور پاخانہ کی حاجتیں پوری کرنے لگے تھے نچلے طبقے کے غیر مہذّب اور جاہل لوگوں کی تو بات ہی غیر تھی اکثر ہندوؤں کی گائیں مسلمانو ں کی بھینسیں اور بکریاں بھی کمروں میں پیشاب اور گوبر وغیرہ کرنے لگی تھیں راہ گیر بھی بڑے اطمینا ن سے وہا ں کھڑے ہوکر اپنی حاجت روائی کرتے۔ محلّے کے منچلے اور آوارہ لڑکوں نے اُس کے گھر کو ’’ گپتا شوچا لے ‘‘تک کا نام دے رکھا تھا ۔آج بہت دنوں کے بعد وہ فطری طور پر اپنے گھر کی دیواروں دروں کو بغور دیکھ رہا تھا ۔کیڑے مکوڑوں اور چیونٹیوں کی بے شمار قطاریں گندے فرش سے لیکر ٹوٹی پھوٹی دیواروں پر مسلسل چڑھ اور اتر رہی تھیں، ایسے ایسے کیڑے مکوڑے پیدا ہوگئے تھے جنہیں وہ پہچانتا بھی نہیں تھا ۔کافی دیر تک وہ کیڑے مکوڑوں کا دوڑنا بھاگنا ، رینگنا ، اُڑنا اور دیواروں پر چڑھنا اُترنا دیکھتا رہا ، پھر نہ جانے کس جذبے کے تحت مسکرا پڑا ، اگلے ہی لمحے وہ اپنے ننگے ہاتھوں سے فرش پر پھیلے ہوئے بے شمار کیڑے مکوڑوں اور دُکان کی دیواروں پر چڑھتی اترتی چیونٹیوں کو مسل کر مارنے لگا اور مسلسل مسکرائے بھی جا رہا تھا ۔ڈھیر سارے کیڑے مکوڑوں کو اُس نے ما ر ڈالا پھر بھی بہت سارے بچ بھی گئے تھے دُکان سے باہر آکر اُس نے آکاش کی اُور دیکھا اور زور سے کھلکھلا پڑا ،اُس نے اپنے دونوں ہاتھ یوں جھاڑے مانو اُس نے کوئی بڑا قلعہ فتح کر لیا ہو۔ اُس کی ویران سُرخ مائل آنکھوں میں تھوڑی سی چمک اور چہرے پر ذرا سی شادابی نظر آئی ..........
اب تو یہ اُس کا معمول بن چُکا تھا کہ وہ جہاں کہیں بھی کاکروچوں چیونٹیوں ،چوہوں ، بلیّوں اور کتّوں کے بچّوں کو دیکھتا تو مارڈالتا ۔ایک بار اُس نے حد ہی کر دی کہ گلی میں حاجی صاحب کی بکری کا بچّہ ابھی اپنی ماں کی پیٹ سے آدھا ہی نکل پایا تھا کہ نظر پڑتے ہی اُس نے پھٹاک سے اُس کی گردن دبا دی ،اُس کی فطرت کی یہ تبدیلی سارے محلے میں موضوعِ بحث بنی ہوئی تھی۔ 
۱۷ سا ل کا طویل عرصہ بس یوں ہی گذر گیا وقت کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے زیبا پُرکشش ، خوبصورت اور مسحور کُن شخصیت کی دو شیزہ بن گئی با لکل ہوبہو اپنی ما ں پریتی کی طرح وہی دراز قد ،گوری رنگت ،خوبصورت گھنے لمبے کالے بال ، ستواں ناک اور بھرے بھرے تھوڑے سے دونوں موٹے ہونٹ ۔خُدا وحدہ لاشریک نے مانو نادرہ کے گھر حور بھیج دی ہو۔
نادرہ بہت خوش تھی اور وہ زیبا کا بڑا خیال رکھتی تھی۔ہر وقت سائے کی طرح اُس کے ساتھ رہتی تھی۔
ادھر کئی مہینوں سے وہ شخص شہر سے باہر تھا ۔ہوا یوں کہ کسی ٹرک ڈرائیور نے اُسے بیٹھا لیا اور اپنے ساتھ لے کر چلا گیا تب سے وہ شہر سے غائب تھانادرہ کے دل میں بھی کئی بار خیا ل آیا آخر وہ گیا تو کہا ں گیا زیبا بھی کئی بار نادرہ سے پوچھ چُکی تھی کہ باپو بہت دنوں سے گھر نہیں آئے۔؟
زیبا جب سے جوان ہوئی تھی۔نادرہ نے اُس کے کہیں تنہا نکلنے پر پابندی لگا دی تھی۔کیونکہ محلہ غیر مہذّب نچلے طبقے کے بد تمیز اور جاہل لوگوں سے پٹا پڑا ہوا تھا ۔مہتاب عالم پرویز ؔ کے افسانہ ’’بازگشت‘‘کا وہ شخص بھی اب نادرہ کے گھر بہت کم ہی آیا جایا کرتا تھا ۔زیبا بھی اپنے باپو کے آنے پر اُس سے بہت کم باتیں کیا کرتی تھی۔ایسی بات نہیں کہ نادرہ نے منع کر رکھا تھا ۔بلکہ بقول اُسی کی بیٹی زیبا کہ باپو بہت گندے رہتے ہیں۔با پو کے آتے ہی زیبا اپنے ناک کو دوپٹّے سے بڑے احتیا ط کے ساتھ باندھ لیا کرتی تھی۔ کہ اُس شخص کے گندے جسم سے اُٹھتی ہوئی بدبو سے اُسے متلیوں اور اُبکائیوں کا احساس نہ ہونے لگے۔جتنی وہ خوبصورت تھی اتنی ہی وہ نفاست اور صفائی پسند بھی تھی۔اس لئے پابو کے آتے ہی گھر کے سارے کمروں میں اگر بتّیاں جلا دیا کرتی تھی۔جس سے کبھی موگرے کی خوشبو آتی تو کبھی رجنی گندھا کی۔
لیکن اچانک ایک دن وہ شخص کسی دوسرے ٹرک سے شہر کی سڑک پر نمو دار ہوگیا وہ کافی بدلا ہوا معلوم ہورہا تھااچھے اور صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے تھا اوربڑھے ہوئے بال اور بڑھی ہوئی داڑھی بھی اُس نے بنوا لئے تھے وہ پہلے سے کافی نارمل لگ رہا تھاآنکھوں میں وحشت اور ویرانی کی جگہ عجیب سی چمک نے لے رکھی تھی وہ پہلے کی طرح نہ تو ڈرا سہما لگ رہا تھا اور نہ ہی ایک کمزور ترین شخص۔ ماتھے پر اُس نے ایک خوبصورت سا چندن کا ٹیکا بھی لگا رکھا تھا جس سے اُس کی نارمل شخصیت میں اضافہ ہو رہا تھا وہ تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا نادرہ کے گھر کی طرف جا رہا تھانادرہ اُسے دیکھتے ہی حیران رہ گئی حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات اُس کے دل میں اچانک اُبھر آئے۔
رات ہوئی تو اُس شخص نے نادرہ کے یہاں ٹھہرنے کی اِچھّا پرکٹ کی جسے نادرہ نے مان لیا ، اور وہ ایک کمرے میں ٹھہر گیا .......
رات بہت اندھیری تھی۔ آسمان کالے کالے بالوں سے ڈھکا ہوا تھاتیز اور موسلا دھار بارش ہونے والی تھی جو تھوڑی ہی دیر میں تیز ہواؤں کے ساتھ شروع بھی ہو گئی۔ بادلوں کی گڑ گڑاہٹ تیز بجلیوں کی چمک نے رات کو اور بھی خوفنا ک بنا دیا تھااُس شخص کی نیند اچانک کھل گئی ، با ہر کھڑکیوں سے جھانک کر دیکھا ۔بہت تیز بارش ہو رہی تھی۔وہ پھر اچانک خوف زدہ سا ہو گیا ۔اُسے لگا شہر میں فساد پھر پھوٹ پڑا ہے۔لوگ پہلے ہی کی طرح وحشی ہوگئے ہیں۔وہ صرف عورتوں اور لڑکیوں کو ہی ڈھونڈ رہے ہیں۔محلّے کے آوارہ اور غیر مہذّب لڑکوں کا ایک گروہ منظّم طریقے سے ایک بار پھر اُس کے گھر کی جانب بڑھ رہا ہے۔اب پریتی تو نہیں اُس کی اپنی ارپنا ہے۔
اُسے یوں لگا کہ محلّے کے لڑکوں کا وہ منظّم گروہ تیز بارش میں بھی نا درہ کے گھر کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔اُن کے ہاتھوں میں مختلف قسم کے ہتھیار ہیں، اور وہ زیبا زیبا کہہ کر پُکار رہے ہیں۔سب سے آگے محلّے کا لنگڑا سلیم ہے جو پچھلے فساد میں اُس کے گھر سے نکلنے والا آخری لڑکا تھا جو تیموری چال سے چلتا ہوا اُس کے اپنے گھر میں گھس گیا تھا ۔پریتی کی عصمت دری اور موت کا سارا منظر عکس بن کر واضح طور پر اُس کی آنکھوں میں اُتر آیا ۔پریتی کی چیخ وپُکار اُس کی بے بسی اور لاچارگی اور کچھ نہ کر پانے کا اُس کاخود کاکمزور احساس ، اور کسی بھی انسان کو جسمانی اور دماغی طور پرلاغر بنا دینے والی فسادات کی وحشت ود ہشت اور ہولناکیاں۔مہتاب عالم پرویزؔ کی’’ باز گشت‘‘بن کر ایک بار پھر مانواُس کے حواس پر حاوی ہورہی تھیں۔
دروازہ کھول کر وہ مانو بڑی ہمّت اور قوّت کے ساتھ زیبا کے کمرے کی طرف تیز قدموں سے چلتا ہوا داخل ہو گیا ۔بلا کی خوبصورت زیبا نادرہ کے ساتھ اُسی کے پلنگ پر سورہی تھی نادرہ بھی گہری نیند میں تھی ۔
سُرخ زیرو پاور کے بلب کی ملگجی روشنی میں زیبا کا مسحور کُن حُسن حوروں جیسا تھا جیسے خُدا نے اُسے ابھی ابھی فرشتوں کے ہمرا ہ نادرہ کے پہلو میں اُتا ردیاہے نیند کی خماری یا غنودگی کے کو ئی بھی نشان اُس کے چہرے پر نہیں تھے جیسے اُس نے لمحہ بھر پہلے ہی نادرہ کے پہلو میں اپنی آنکھیں موند لی ہوں۔
وہ زیبا کو حیرت انگیز نگاہوں سے دیکھتا رہ گیا وہ زیبا کو پہلی بار اتنے قریب سے بے نیاز ہوکر دیکھ رہا تھازیبا کا مکمّل وجود پریتی جیسا ہی تھاوہی آنکھیں،وہی خوبصورت ستوان ناک ،پرکشش بھرے بھرے دونوں ہونٹ اوردراز قد، اُس کا پورا وجود مختلف قسم کی کیفیتوں سے دوچار ہونے لگا اُس کا سارا وجود پتا نہیں کس جذبات کے زیر اثر سہر اُٹھا اُس کے تحت الشعور کی تاریک غاروں سے مانواُس کی پریتی کامکمّل وجود اُس کے شعور کے لئے حاضر تھا اُس نے بڑے احتیاط اور آہستگی سے خلاء میں سرگوشی کی کہ چل میرے ساتھ........ میرے کمرے میں .....کہ باہر وحشی پھر تجھے ڈھونڈ رہے ہیں.......پیوست ہوجا گداز جسم بن کر میرے جسم میں.......تحلیل ہو جا روح بن کر میری روح میں .......کہ کوئی تجھے ڈھونڈ نہ سکے ۔ایک خلاء بن کر تو مجھ میں سما جا........ کہ تجھے کوئی محسوس بھی نہ کر سکے۔
زیبا اس سے پہلے کچھ سمجھ پاتی وہ مہتاب عالم پرویزؔ کے اُس شخص کے مقنا طیسی کشش کے زیرِ اثر اُس کے ساتھ کمرے میں چلی گئی اُس اندھیری کالی رات میں وہ شخص زیبا کے گداز جسم میں خلاء بن کر سما چُکا تھا ..........
صبح نادرہ حیرت زدہ تھی ، اُس کی چھاتیوں میں دودھ کی ایک بوند بھی نہ تھی .......... وہ شخص کہیں بھی نہیں تھا ........... شاید خلا ؤں میں .................وہ اپنے مکمّل وجود کے ساتھ تحلیل ہو چُکا تھا ۔
مہتاب عالم پرویزؔ کے افسانو ں کے کردار اور اُس کی رُوح کے ساتھ زندگی جینا بہت دشوار کُن اور پیچیدہ ہے،کیونکہ اُن کے افسانوں کے کردار ہلکے پھلکے نفسیات کے ساتھ گہرے اور تحت الشعوری نفسیات کے حامل ہوتے ہیں۔جسے پڑھنا اور سمجھنا قاری اور ادبی شخصیتوں کے لئے بھی گہرا اور سنجیدہ مطالعہ کا مطالبہ کرتی ہے۔
کیونکہ خُدا نے اس کا ئنات کوجسے ہم جانتے ہیں اور جس کا ہمیں علم ہے کہ ہر شئے کو مختلف نفسیات دے کر پیدا کیا ہے۔چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان ، ذرّہ ذرّہ نفسیات میں قید ہے۔اس لئے نفسیات سے رہائی ممکن نہیں۔ کیونکہ نفسیات ہی روح کی شکل میں کسی بھی عورت کے حمل میں پلتے ہوئے بچّے میں پھونکی جاتی ہے۔جسے روح بھی کہتے ہیں۔یہ نفسیات ہی ہے جو روح کی شکل میں ہمارے ساتھ ساتھ رُوح قبض ہونے تک رہتی ہے۔یہ نفسیات ہی ہے جو ہما رے جسم کو کبھی چھوڑنا نہیں چاہتی ہے ، اور یہ نفسیات ہی ہے کہ مہتاب عالم پرویز ؔ کے ’’باز گشت‘‘کا وہ شخص اپنی ہی بیوی اور اولاد میں تمیز نہیں کر پایا۔ غرض یہ کہ انسانی اورغیر انسانی ہرچھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی جنبش کے پس منظر میں نفسیا ت ہی کار فرما ہوتی ہے ۔ یہاں تک کے پہاڑوں اور پتھروں کا اپنی جگہ غیر متحرک ہونا بھی اِس کے متحرک ہو نے کی نفسیات میں شامل ہے میری نفسیا ت یہ تسلیم اور تصوّر کرتی ہے کہ جس طرح اِس سر زمین پر عورت اور مرد کے پاکیز ہ اور غیر پاکیزہ جسمانی تعلقات سے عورت کے شکم سے ایک بچہ نمودار ہوتا ہے اور بڑا ہوتا ہے ٹھیک اُسی طرح پتھروں اور پہاڑوں کے درمیان بھی کسی طرح کے اختلاط کا عمل بھی کار فرماہو جسے ہم دیکھ یا محسوس نہیں کر پاتے۔ ہماری عقل یہ سمجھ نہیں پاتی کہ اُس میں تغیرکیسے آیا۔؟ وہ بڑے کیسے ہوگئے۔؟ ہمارے باپ داداؤں کے باغوں میں زمین میں دھنسا اور گڑا ہوا وہ پتھر چند سالوں یا بہت سالوں بعد کیسے بڑا ہوگیاٹھیک اُسی طرح بازگشت کا وہ شخص اپنی ہی بیٹی کے ساتھ اختلا ط میں کس نفسیا ت کے زیر اثر مبتلاء ہواقاری اور ادبی شخصیتوں کے ذہن و دماغ میں یہ آئینے کی طرح واضح ہو چُکا ہے کیونکہ انسانی نفسیات سے ایسے عمل کا سرزد ہونا کوئی بعید نہیں بلکہ یہ لازمی اور ممکن عمل ہے جس سے وہ شخص دو چار ہوا۔
ہوسکتا ہے پھر کبھی مہتاب عالم پرویزؔ کے افسانوں اور یا پھر کسی افسانے کے ذریعہ موقع ملے تو پھر باتیں ہوں گی ۔ کیونکہ ابھی ابھی میری سب سے بڑی بیٹی حنا مہوش کا فون آیا ہے کہ پاپا انجنیئرنگ کالج کل سے بند ہو رہا ہے اور میں کل ہی آ رہی ہوں۔
دُعاگو ہوں کہ خُداہم سب کو اپنی امان میں رکھے۔آمین۔

()()()()()
جاوید اختر

Read 2172 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com