الإثنين, 23 كانون1/ديسمبر 2013 15:28

اتر پردیش کی حکمراں جماعت ،مسلمان اور بے چا ری اردو: ڈاکٹراسلم جمشید پوری

Rate this item
(0 votes)

  اتر پردیش کی حکمراں جماعت ،مسلمان اور بے چا ری اردو
  ڈاکٹر اسلم جمشید پور

                            اتر پردیش سر کار کی تشکیل کو اکیس مہینے کا طویل عرصہ گذرنے کو ہے ۔اس مدت میں موجودہ سر کار نے اپنے تقریبا سبھی شعبوں میں مختلف النوع کاموں سے شروعات کردی ہے۔ سبھی شعبوں کی تشکیل بھی ہو گئی ہے۔ اب سے کچھ ماہ قبل تک اقلیتوں سے متعلق زیا دہ تر شعبے مدرسہ عربی فارسی بورڈ ،اقلیتی کمیشن،وقف بورڈ ،اردو اکادمی، فخر الدین علی احمد کمیٹی وغیرہ معلق سے تھے۔ ان کے نہ تو سر براہ اور نہ ہی کمیٹیاں نامزد ہوئی تھیں۔ ان میں سے صرف حج کمیٹی ہی ایسا ادارہ ہے جو حکومت کی ابتدا کے ساتھ ساتھ کام کررہا تھا۔ ان تمام اداروں کا تعلق براہ راست مسلمانوں سے ہے۔ موجودہ سر کار بھی نہ صرف مسلمانوں کی حمایتی رہی ہے بلکہ اس بار کے انتخاب میں مسلمانوں کے یک طرفہ ووٹ ڈالنے سے سر کار نے ریکارڈ فتح حاصل کرتے ہو ئے واضح اکثریت سے بھی زائد نشستیں حا صل کیں۔ یوں بھی ملائم سنگھ مسلمانوں کے مسیحا کہلائے جاتے ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملائم اور مسلمان ایک سکے کے دو پہلوں کے طور پر اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ سماج وا دی نے اتر پردیش میں جتنے بھی انتخابات میں حصہ لیا ان میں مسلمانوں کے کل ووٹ کا بڑا فیصد حا صل کیا ہے۔ دوسری طرف ملائم سنگھ نے بھی ہمیشہ مسلمانوں کی محبت کا حق ادا کیا۔ خواہ معا ملہ سر کاری نوکریوں میں مسلمانوں کی بحا لی کا ہو۔ اردو اسا تذہ کی بھرتی کی بات ہو یا پھر ہر ضلع میں اردو مترجم کی تقرری ہو۔ یہی نہیں اردو اور مسلمانوں کو ملا ئم سنگھ نے ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا۔ انہیں کار ہائے نمایاں کی بدو لت ملائم سنگھ کو بہت سا رے القابات سے بھی نوا زا گیا۔ مسلمانوں کا مسیحا، ملّا ملائم سنگھ،اردو کا مسیحا، وغیرہ کے القابات سے نہ صرف ملا ئم سنگھ اپنا سینہ چو ڑا کرلیتے ہیں بلکہ مسلمانوں کو بھی اس بات کا فخر ہو تا تھا کہ صو بے میں کوئی ہے جو ان کا اپنا ہے۔ کوئی ہے جو ان کا غمگسار ہے۔ ان کی سننے اور مدد کرنے وا لا ہے۔ ملائم سنگھ نے بہت سے مسلم ایم ایل اے حضرات کو حکومت میں حصہ دار بھی بنایا ۔ 2012ء میں جب سماج وا دی پارٹی نے وا ضح اکثریت کے جا دوئی عدد کو بھی کافی پیچھے چھوڑ دیا تو ملا ئم اور مسلمان پھولے نہیں سمائے۔ ہر طرف ملائم سنگھ کے وزیر اعلی بننے کی مبا رک بادیوں کے سلسلے تھے۔ لیکن قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا ۔ اس انتخاب میں جہاں ملائم اور دیگر رفقاء کی محنت اور جانفشانی شامل تھی ۔وہیں نو جوان دلوں کی دھڑ کنYoth Iconاکھلیش یادو کی سوجھ بوجھ ،جدید ٹکنا لوجی کا بہتر استعمال اور ہوش مندی سے انتخاب لڑ نے کا اثر بھی تھا۔ تین بڑی پارٹیاں، کانگریس میں راہل گاندھی، بی جے پی میں ورون گا ندھی اور سماج وادی پارٹی میں اکھلیش یادو نوجوان نگاہوں کا مرکز بنے ہو ئے تھے۔مغربی اتر پردیش میں راشٹریہ لوک دل کے جینت سنگھ بھی اسی صف میں شامل تھے۔ ان چا روں میں نہ صرف عوامی سطح پر زبر دست مقابلہ تھا بلکہ یہ سب اپنی اپنی پارٹی کی کامیابی کے لیے اپنا سب کچھ دا ؤ پر لگا رہے تھے۔ اس انتخاب میں پہلی بار فیس بک اور انٹر نیٹ کو بھی انتخاب کے اشتہار کا ذریعہ بنایا گیا تھا۔ نتائج نے سب کو حیرا نی میں ڈال دیا۔ نتائج سے پہلے راہل گاندھی کے بہت چر چے تھے اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ گانگریس راہل کے کاندھوں پر اپنی کھوئی زمین پانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ لیکن اکھلیش یا دو نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا تھا اور نہ صرف اتر پردیش بلکہ قومی سطح پر اکھلیش Youth Iconکے طور پر ابھرے۔ نوجوانوں کے لیے ان کی اہمیت ایک منور چاند کی سی تھی۔ وہ بیرون ملک تعلیم حا صل کر کے لو ٹے تھے۔ ان کا کھلا ہوا ذہن، ترقی یا فتہ سوچ، جدید ٹکنا لوجی سے ذہنی ہم آ ہنگی نے انہیں اتر پردیش میں سر کار کا مرکز بنا دیا۔ ملائم سنگھ کے لیے یہ بات خوش کن حیرا نی کی تھی اور انہوں نے خو شی خوشی اکھلیش کو اتر پردیش کی باگ دوڑ سونپ دی۔ انہیں اکھلیش پر کافی بھرو سہ تھا اور پھروہ خود ان کی پشت پر تھے۔سر کار بنی۔ سب کچھ ٹھیک ٹھیک چلنے لگا،اکھلیش یا دو کی تاج پو شی سے مسلمانوں میں بھی خو شی کی لہر سرایت کر گئی۔انہیں اکھلیش یادو سے بہت امیدیں تھیں۔ ابتدا ئی تین ماہ گذرے۔ مسلمانوں کی امیدیں مزید بڑھتی گئیں۔ چھ ماہ اور پھر سال گذر گیا ۔ سر کار ہر طرف اپنے بگڑے کام سنوار رہی تھی۔ ایک سال میں صرف اقلیتوں کے معاملات ہی ایسے تھے جن کی طرف سرکار کی توجہ نہیں تھی۔ اس سلسلے میں بہت سی افوا ہیں گرم تھیں۔ کوئی کہتا کہ یہ سب کام اقلیتوں کے وزیر کا بینہ محمد اعظم خاں کی وجہ سے معطل ہیں۔کوئی کہتا وزیر اعلیٰ ایک نہیں پانچ پانچ لوگ ہیں۔ہر شخص کی اپنی اپنی پسند ہے۔پھر مسلمان تو سماج وا دی پارٹی کے اپنے ہیں۔ کہاں بھا گے جارہے ہیں۔ دیر سویر سب کچھ ہو جائے گا۔ اسی انتظار میں ایک دن اخبارات میں ڈا کٹر یا سین عثمانی کے اردو اکا دمی کا چئیر مین بنائے جانے کی خبر شا ئع ہو ئی۔ اردو والوں میں امیدقوی ہو ئی کہ اب سارے معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔لیکن تین دن بعد ہی اس خبر کی تردید کردی گئی اور معاملہ پھر ’’جوں کا توں‘‘ کی کیفیت میں آ گیا۔پھر ایک عرصہ گذر گیا۔ایک دن مدرسہ عربی و فارسی بورڈ کے چئیر مین کے طور پر میرٹھ کے شہر قاضی پروفیسر زین الساجدین کانام خبروں کی سرخی بنا تو ایسا لگا کہ اب اقلیتوں کے سارے شعبے حرکت میں آ جائیں گے اور سبھی کے سر براہ اور ممبران کی نامزدگی ہو جائے گی۔ اس بات کو بھی ڈیڑھ دو ماہ کا عرصہ ہونے کو ہے۔ حا لات ہنوز ویسے ہی ہیں۔
اردو اکا دمی اور فخرالدین علی احمد کمیٹی کی تشکیل نو ابھی التوا میں ہے۔ جب کہ 2012ء میں سر کار کی تشکیل کے پہلے سہ ماہی کے اندر اندر بھا شا اور ہندی سنستھان کے سر براہ اور ممبران کو نامزد کردیا گیا تھا۔کیا اسے اتفاق ہی سمجھا جائے کہ اردو اکادمی اور فخر الدین علی احمد کمیٹی کو انتظار میں ڈال دیا گیا یا اردو میں بہترین شخصیت کی طویل تلاش۔ کیا اردو میں موجودہ سر کار کو کوئی لائق فائق اور ایماندار شخص نہیں ملا ۔ اردو اکادمی سرکار کی بے توجہی کا شکار کیوں ہے۔یہ ایک بہت اہم اور سلگتا ہوا سوال ہے۔جب کہ سر کار اردو نواز ہے بلکہ ملائم سنگھ کو تو اردو کا مسیحا بھی کہا جاتا ہے۔ پھر اس کے کیا اسباب ہو سکتے ہیں، جب کہ پچھلی سر کار نے حکومت سازی کے ایک ماہ کے اندر اردو اکا دمی، فخرالدین کمیٹی اور دیگر اقلیتی اداروں کے نا ئب چئیر مین بحال کردیے تھے۔اردو اکیڈمی کی اس حالت کی ذمہ داری اتر پردیش کے اردو وا لوں پر ہی زیا دہ ہے۔ اردو وا لوں نے کبھی احتجاج نہیں کیا۔ اردو وا لوں نے کبھی حکومت سے مانگ نہیں کی کہ ایک ماہ کے اندر اکیڈمی کا قیام ہو یا اکیڈمی کا بجٹ بڑھا کر دس کروڑ ،بیس کروڑ کردیا جائے۔کیوں کہ اردو وا لے کبھی اردو کے معاملے میں متحد نہیں ہوئے۔ کبھی اردو کو سرکار کی کمزوری نہیں بنایا۔ سر کاروں کو بھی ایسا لگنے لگا کہ سب سے آخر میں اکیڈمی کو دیکھیں گے۔پھر ایک اور غلط رواج یہ چل پڑا کہ سیاسی جما عتوں نے غیر اردو داں حضرات کو ان عہدوں پر بٹھا نا شروع کردیا ۔ یہی نہیں اب تو اکیڈمی اور فخر الدین کمیٹی توپارٹی ورکروں کے لیے مخصوص ہوگئی ہیں۔ اردو وا لوں نے اس بات پر بھی کبھی اعتراض نہیں کیا، جب پہلی بار ایک سیا سی جماعت نے ایک غیر اردو داں سیاسی ورکر کو اکیڈمی کا چئیرمین بنا دیا تو صحا فیوں نے ان سے سوال کیا۔ آپ اردو نہیں جانتے تو اکیڈمی کیسے چلائیں گے۔ تو ان کا مضحکہ خیز جواب تھا کہ ریل کے وزیر کو کیا ریل چلا نی آ تی ہے یا ہوا بازی کے وزیر کو جہاز اڑا نا آ تا ہے؟ سیاست نے اردو اور اردو اداروں کے وقار کو ضرب پہنچا ئی اور ہم اردو وا لے دیکھتے رہے۔ تقریبا دو سال سے اردو اکادمی اور فخرالدین کمیٹی کی سر گرمیاں معلق ہیں، اردو وا لوں کو فکر نہیں۔ اردو کے طالب علموں کو وظیفہ نہیں مل رہا ہے، ہم خا موش ہیں اور مصنفین کو انعا مات نہیں دیے جا رہے ہیں،ہم خا موش ہیں،جب کہ اس کے متوا زی ہندی سنستھان کے انعا مات دینے کے لیے وزیر اعلیٰ خود حاضر ہوتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ ایک وزیر کے سر منڈھ کر سر کار کیا ثابت کرنا چاہ رہی ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی مسلمانوں کو مسلمان سے ہی نقصان پہنچا ؤ۔ اقلیتوں کے سارے معاملات میں تاخیر کا ذمہ دار ایک وزیر کو بنا کر سارے معاملات کو پسِ پشت ڈالا جارہا ہے۔ کہاں ہے مسلمانوں کے مسیحا؟ کہاں ہیں اردو کے مسیحا؟کب تک اردو پر یہ ظلم ہو تا رہے گا۔ ادھر پتہ چلا ہے کہ اردو کے کسی دیوا نے نے کورٹ میں اردو اکادمی کی بحا لی پر RTIکیا تو کورٹ نے حکومت سے جواب مانگا ۔ سر کار نے جواب دینے کے کے لیے بھا شا وبھاگ کے چیف سکریٹری کو چئیر مین بنا کر خانہ پری کر کے جواب دے دیا۔ یہ سب کیا ہے؟یہ سب ہماری سیاسی سوجھ بوجھ کی کمی ہے ۔ اردو کے بزرگ اور اکابرین کی سادہ لو حی اور معصومیت ہے کہ انہوں نے کبھی اردو اکادمی کو مسلمانوں کی آواز نہیں بننے دیا۔اردو کو ووٹ بینک نہیں بننے دیا مگر دوستو اب وقت آ گیا ہے کہ اردو کے لیے کام کر ونے ا لوں کو ووٹ سے حمایت اور کام نہ کرنے وا لوں کو ووٹ سے محروم کرنا ہوگا اور اردو اکادمی اور دیگر اداروں کو ایک قوم، ایک طبقے تک پہنچنے کا ذریعہ بنانا ہو گا۔ اردو کے حقوق کے لیے میدا ن میں آ نا ہوگا۔ کیا ہی اچھا ہو تا کہ ہما رے مسلم ایم ایل اے حضرات بھی اردو کا درد سمجھتے اور سب مل کر سر کار پر اردو کے حقوق کے لیے دبا ؤ ڈا لتے۔ یہی نہیں اردو کے ساتھ ہو نے وا لی نا انصا فی پر ہر شہر میں ہزا روں اور لا کھوں محبان اردو،’’ ارردو ریلی‘‘ نکالتے۔جس میں اردو سے محبت کرنے وا لاہر سیا سی جماعت کا آ دمی شریک ہو تا۔ جب اردو کی حمایت میں لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد ،ہم سڑ کوں پر جمع کر پائیں گے تو خود بخود اردو کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم خا موشی کو توڑ دیں، اردو اداروں کے سر براہ اگر غیر اردو داں حضرات کو بنایا جائے تب بھی ہمیں علم احتجاج بلند کرنا ہوگا۔ اردو کے حقوق کی لڑا ئی کے لیے کمر بستہ ہونے کا وقت ہے۔ سبھی اردو والے اپنے اختلافات بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر آ ئیں اور اردو کی حفاظت کا ذمہ خود اپنے شانوں پر لیں ۔
عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.

Read 1753 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com