الأربعاء, 01 كانون2/يناير 2014 13:00

افسانہ ’’ آقا ‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ : مہتاب عالم پرویزؔ

Rate this item
(0 votes)


  افسانہ ’’ آقا ‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ
   مہتاب عالم پرویزؔ 


              جہانگیر محمد کا شمار عصر حاضر کے ممتاز ادیبوں میں ہوتا ہے ۔ جمشید پور میں آپ کو بہت ہی عزّت و احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ افسانے کے بہترین اُستاد ہیں اور اُن کے تمام شاگردوں کے اندر وہی جلالت شان، فن کمالات بدرجہ اُتم موجود ہے اور یہ آپ کی درسی خدمت کا ثمرہ ہے ۔تیس بتّیس سالوں کے بعد غیر دانستہ طور پرآپ کا افسانہ ’’ حقائق ‘‘ میں پڑھ کر بے حد خوشی ہوئی ویسے آپ کے افسانے کی ابتدا ۱۹۷۷ء تا ۱۹۷۸ء میں ہو چکی تھی اور آپ کی پہلی کہانی ’’ ایک سفید گلاب ‘‘ جواز میں شائع ہوئی تھی پھر کئی کہانیاں جیسے ’’ لا کا سفر ‘‘ ’’ سُرخ گلاب ‘‘ اور آج کل میں ’’ ممی ‘‘ جیسے مقبول افسانے۱۹۸۳ء میں شائع ہوئے ۔ اور ان دنوں بہت ساری کہانیاں، غزلیں، نظمیں اور آزاد نظمیں میں نے سُنی ہیں جو غیر مطبوعہ ہیں۔
             شہر آہن کے ہی بہت سارے ادیبوں کی نشود نما آپ کے ہی ہاتھوں ہوئی جن میں ،میں بھی شامل ہوں۔
یہ الگ سی بات ہے کہ تصوف کی طرف آپ کا قلمی ملان بہت زیادہ تھا اور آخر میں اپنی زندگی کا بیش تر حصہ آپ نے اُسی میں صرف کر دیا۔آپ کی زندگی کا مقصد دین کی سرفرازی ہے۔ 
             اور آج میں نے مجبوری میں اپنا یہ قلم اُٹھایا ہے اور یہ نئی مراجعت ہے کہ آپ کے افسانے ’’ آقا ‘‘ پر اپنے خیالات اور اپنے تصورات کا اظہار کر سکوں۔ویسے مجھے احساس ہوتا کہ کہانیاں تو اسی سماج کی دین ہیں، اسی معاشرے میں جنم لیتی ہیں۔ کہانی کار بھلا کیا کرسکتا ہے، ایک بہاؤ ہے جو اندر کی سبھی چٹانوں کو توڑ کر باہر نکل پڑتا ہے۔ اور قلم دوڑنے لگتا ہے۔
             حَکم اپنے پس منظر میں مکّے کا ابوجہل تھا جو ’’ آقا ‘‘ کا مرکزی کردار ہے۔ مکّے کا یہ سردار اپنے آپ کو سب سے زیادہ عقل مند سمجھتا تھا اسی تاریخی پس منظر میں یہ کہانی وجود میں آئی ہے ۔ سارے معجزے اُسی عقل مند ابوجہل کے سامنے ہوئے۔ کنکری کا کلمہ پڑھنا ، چاند کا دو ٹکڑے ہونا، اور ان سارے معجزوں کو دیکھنے کے بعد بھی حکم ( ابوجہل )ایمان نہیں لاسکا۔ ایسے ہی حالات آج کے معاشرے میں بھی موجود ہیں اور اُس کے ذرّیات ہم لوگوں کو چاروں طرف سے اپنے حصار میں لئے ہوئے ہیں۔ ہمارے سماج کی بھی آج نا گفتہ حالات ہیں ، علم کی انتہا کبر پر ہوگئی ۔ دربار ملکوت کے معلم کو لعنت کا طوق ڈال کراللہ نے راندہ درگاہ کردیا ، حالانکہ علم کی ابتدا اور انتہا طلب ہے اور شیطان کو اُس کے علم کے غرور نے کھا لیاکیونکہ اس پورے روئے زمین پر شیطان لفظ کا نام ونشان نہیں تھا جو بہکا دیتا اُس کو اپنی عبادت ، علم اور معرفت کا غرور کھا گیا جس طرح حَکم آزاد کو اس افسانے میں ملک الموت کھا گیا یہی ہے وقت کا تقاضہ جس پر ہماری نظر ہونی چاہیے اور یہ کہانی اُسی پس منظر میں لکھی گئی ہے۔کہانی علامتی ہے اور ترسیل و ابلاغ کے دروازے کھولتی ہے۔ آ پ بھی سمجھ جائیں گے اگر غور کریں گے تو یہ کہانی آپ کے آس پاس ہی موجود ہے تفہیم کی رسائی ہو جائے گی تو کہانی کھل جائے گی۔
            اقتباس کے طور پر ’’ آقا ‘‘ کے چند خوبصورت باب ملاحظہ فرمائیں .........
            وہ ایک خاردار جھاڑ تھا اس کی نشود نما یوں ہوئی تھی، نہ پھل نہ پھول اور نہ چھاؤں ہیبت ناک اُس کے تنے پر کانٹے ہی کانٹے تھے ہیبت کریہہ اُس کے تمام پتّے، تنے اور جڑ کانٹے سے بھرے ہوئے تھے۔
            بن موسم، بن برسات اور بن کھیتی اُگ آئے تھے یہ پودے.........
            یہ کتنا خوبصورت استعارہ ہے جو علامتی انداز میں منظر کشی میں کردار کے اردگرد تمام مناظر کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ جیسے کوئی نطفہ نا تحقیق کا لاوارث سا پودا نہ علم ،نہ عمل ،نہ کوئی تربیت اور نہ ہی ادب ، بے ادب ، بد نصیب کی روایت اس کہانی کا مرکزی کردار ہے۔ جب اس کی ریشہ دوانیاں اورنکتہ چینیاں دل آزاری کا سبب بننے لگیں تو کہانی کار اُس کی اصلاح کرنا چاہتا تھا مگر اُس نے تو اُس قلم کارکے ہاتھوں کو بھی زخمی کر دیا اورڈس لیا پھر قلم لہولہان ہو اُٹھا اور پھر ایک ایسی کہانی وجود میں آئی جس کا جنم نطفہ نا تحقیق سے ہوا تھا اور جس پر تمام عقل ختم ہو جاتی ہے بلکہ یوں کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا ختم العقل آقانے کبھی سچائی اور حق کو تسلیم ہی نہیں کیا اور کبر میں ڈوبی ہوئی اُس کی عقل کی مونچھیں فلک شگاف نعروں کی بلندیوں پر براجمان ہونے لگیں اور وہیں سے ابتدا ہوئی اس کہانی کی، سارے کرتوت اولجلول حرکتیں اس کی عادت میں شمار تھیں اکثر نا مناسب جملے گڑھنا اُس کا شیوہ تھا۔اُس کی جاہلانہ حر کت سے پڑھے لکھے لوگ بھی نالاں رہتے تھے ایسی اُچھی حرکتوں پر بھی وہ خوش فہمی کا شکار رہتاتھا۔ دراصل وہ عُجب کا مریض تھا۔
          ویسے بھی آج کا افسانہ انسانیت کا زوال ،انسانی قدروں کی پامالی اور انفرادیت کی گمشدگی اور بے چہرگی کی شناخت بن گیا ہے یہ انسان کا سب سے بڑا المیہ ہے اس عظیم انسانی المیے کا شاہد اگر کوئی زمین پر موجودہے تو وہ صرف مخلص اور حساس فنکار ہے جو افسانہ ’’ آقا ‘‘ میں روشن خیالات کی آرا سے صاف اور شفاف دکھائی دیتا ہے ۔ یعنی وہ انسان صرف آدم کا لیدر پہنے ہوئے ہے لیکن فطرتا سانپ کی طرح ڈسنے والا اور اپنے بھائیوں کو ایذا پہچانے والا زہریلا سانپ ہے۔ اُس کی پیش کش اور تکیہ کلام کے اس ایک جملے میں عیاں ہوتی ہے کہ سوئے ہوئے سانپ کو جگانا نہیں چاہیے۔
          افسانے کی اصل روح اُس کا کلا ئمکس جس پر تمام لوگوں اور قاری کی نظر نہیں پڑسکی کہ جب کبر و غرور کے نعرے فلک شگاف بلندیوں پر براجمان ہونے لگے، تو وہ ایک چنگھاڑ آتشی تھی جو بجلی کی طرح حکم پر گر گئی اور اُس کی بصارت کو موت کے وقت بھی اُچک کرلے گئی اور اُس کے وجودکو بھی پاش پاش کر گئی قارئین بھی ششدر رہ گئے اور ایک بہاؤ تھا قارئین بھی ان لفظوں کے بہاؤ میں تیرنے لگے۔
          دراصل یہی وہ بصارت تھی جو بہت سارے مبصرین کو اپنے ابہام میں بہا لے گئی، سوال یہ ہے کہ کیوں ایسا ہوا کہ بچے سارے شور مچا رہے تھے کہ سوئے ہوئے سانپ کو اب کون جگائے گا.......؟ یہ کیوں .......؟یہ کافی گہرا سوال ہے جو گنجینہ معنی میں اپنے اندر تفہیم کی پوری وسعت رکھتا ہے ۔ کہانی کا علامتی پیرایہ یہ ہے جو شور مچاتے ہوئے بچوں کی شکل میں نئی نسل کے طور پر افسانے کی معراج پر پہنچ گیا۔ جس سے معنی کا طلسم خود ظاہر ہونے لگتا ہے لیکن قارئین اس گہرے رمز کو چھو نہیں سکے یہی کہانی کا کلائمکس ہے جو بہت عبرت ناک ہے۔ موت کے پہلے آدمی کی اصلاح ہو سکتی ہے لیکن موت کے بعد کچھ بھی نہیں اور انجام کے اعتبار سے یہی حَکم کی موت کا بہانا بن گئی اور’’ آقا ‘‘ کے تمام غرور کا خاتمہ ہوگیا ۔ویسے یہ افسانہ کافی عبرت ناک ہے .......

*****
مہتاب عالم پرویز ؔ مکان نمبر ۱۱ ، کراس روڈ نمبر ۶۔ بی 
آزاد نگر ، مانگو جمشید پور۔ ۸۳۲۱۱۰
جھار کھنڈ انڈیا
E- mail عنوان البريد الإلكتروني هذا محمي من روبوتات السبام. يجب عليك تفعيل الجافاسكربت لرؤيته.  

Read 2880 times

Leave a comment

Make sure you enter all the required information, indicated by an asterisk (*). HTML code is not allowed.

Latest Article

Contact Us

RAJ MAHAL, H. No. 11
CROSS ROAD No. 6/B
AZAD NAGAR, MANGO
JAMSHEDPUR- 832110
JHARKHAND, EAST SINGHBHUM, INDIA
E-mail : mahtabalampervez@gmail.com

Aalamiparwaz.com

Aalamiparwaz.com is the first urdu web magazine launched from Jamshedpur, Jharkhand. Users can submit their articles, mazameen, afsane by sending the Inpage file to this email id mahtabalampervez@gmail.com, aslamjamshedpuri@gmail.com